0
Friday 8 Mar 2019 20:39

ہم مقاومتی عمل سے تھکے نہیں، ان شاء اللہ اقتصادی جنگ میں بھی سرخرو ہونگے، سید حسن نصراللہ

ہم مقاومتی عمل سے تھکے نہیں، ان شاء اللہ اقتصادی جنگ میں بھی سرخرو ہونگے، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے حمایت مقاومت اسلامی کمیٹی کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب کے شروع میں لبنان کے اندر حمایت مقاومت اسلامی کمیٹی کے وجود میں آنے کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں اس کمیٹی کے پاس انتہائی کم بجٹ اور نہ ہونے کے برابر سہولیات تھیں، تاہم اس کے بانیوں نے کوشش کرکے ہر ممکن طریقے سے اموال جمع کئے اور ہمیشہ مقاومت کی حمایت کی۔ میں اس کمیٹی میں شامل برادران، خواہران اور عہدیداران کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح میں ان تمام افراد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے ان 30 سالوں کے دوران کسی بھی عہدے پر خدمات انجام دی ہیں، خاص طور پر ان خواہران کا جو اس کمیٹی کا اکثریتی حصہ ہیں اور سب سے بڑھ کر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ میں اس کمیٹی میں موجود امانتداری، دقت، بیت المال سے وفاداری اور فراہم کی جانے والی غیر مشروط امداد کی گواہی دیتا ہے۔ آپ سچے اور حقیقی امانتدار ہیں، جو اس امانت کو اس کے اہل تک پہنچا رہے ہیں! میں ان تمام لوگوں کا شکرگزار ہوں، جو حمایت مقاومت اسلامی کمیٹی تک رقوم اور مادّی امداد پہنچاتے ہیں، تاکہ وہ اس کے اہل تک پہنچ جائے۔

انہوں نے کہا کہ مشرقی لبنان کے علاقے بقاع میں گذشتہ چند سالوں میں تکفیری دہشتگردوں کے ساتھ مقابلہ کرکے انہیں کوہستانی مقامات سے نکال باہر کرنے کے دوران ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو انتہائی اصرار کے ساتھ مجاہدین کے لئے اشیاءِ خوردونوش کی صورت میں اپنی امداد جمع کروا جاتے، درحالیکہ مجاہدین کو کسی قسم کی غذائی یا مالی امداد کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لوگوں دشواری کے دنوں میں سختی کے ساتھ اپنے گھروں میں تھوڑی بہت رقم جمع کرتے ہیں۔ ہم نے جنوب کے علاقے میں 33 روزہ جنگ کے دوران اور سال 2000ء سے پہلے بھی لوگوں کی یہی روش دیکھی ہے۔ ہم ان لوگوں سے قوت حاصل کرتے ہیں اور اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ دراصل حمایت مقاومت اسلامی کمیٹی نے جہادی میدان کی توسیع و ترقی کا موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ مقاومت تو اپنی جان گروی رکھ کر جہاد کرتی ہے اور اس رستے میں اپنے عزیز ترین اعضاء کو قربانی کے لئے پیش کرتی ہے۔ پس مال کے ساتھ جہاد کرنے کا موقع بھی میسر ہے۔ ہر مقاومت کو اموال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چیز زندگی کے اصولوں اور خداوند تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی بناء پر فطرت کا حصہ ہے۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ اسلام بھی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے اموال سے انجام پائی۔

سید مقاومت نے اپنے خطاب کے موضوعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ میری گفتگو کا پہلا موضوع امریکی پابندیاں، اقتصادی بائیکاٹ اور دہشتگرد تنظیموں کی فہرستیں ہیں، جبکہ آخری موضوع برطانیہ کا حزب اللہ کے سیاسی ونگ کو دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ ہے۔ اس بات کی توقع ہے کہ مجموعی طور پر مقاومت کی تحریکوں پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں میں اضافہ ہوگا۔ پورے خطے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے بہیمانہ منصوبوں کو پے درپے شکست ہوئی ہے، لہذا یہ بات واضح اور روشن ہے۔ غزہ کی پٹی کے لوگ مضبوط اور مستحکم ہیں۔ ایران کی صورتحال بھی یہی ہے، ایران پابندیوں کے مقابلے میں مستحکم ہے۔ البتہ مقاومت اسلامی کی حمایت کرنے والے اپنی حمایت جاری رکھیں۔ یہ پابندیاں ہمارے خلاف لڑی جانے والی اقتصادی، نفسیاتی اور مالی جنگ کا ایک حصہ ہیں۔ ان تمام تر اقدامات اور بیانات کے باوجود ان کی امیدیں اور آرزوئیں خاک میں مل جائیں گی، کیونکہ وہ کبھی بھی ہمیں محاصرے میں نہیں لے سکیں گے۔

انہوں نے مقاومت کے سامنے دشمن کی ناتوانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج مقاومتی تحریکیں امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کے سامنے سینہ سپر ہیں، جیسا کہ عراق اور شام میں انہوں نے میدان مار لیا ہے اور لبنان میں بھی فتح یاب ہوئی ہیں، جبکہ یمن میں بھی مقاومت مستحکم اور پائیدار ہے۔ وہ ہمیں دہشتگرد تنظیموں کی فہرستوں میں شامل کرتے ہیں اور ہمارے خلاف تنبیہی اقدامات اٹھاتے ہیں؟ امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بری طرح شکست کھائی ہے اور اب ہر روز یمن میں شکست کھا رہا ہے۔ اسرائیل کی فوج کسی بھی قسم کی جنگ لڑنے سے ڈرتی ہے۔ انہیں اپنے دفاعی سسٹمز پر اعتماد نہیں ہے، اسی لئے انہوں نے امریکہ سے "ٹاڈ" منگوایا ہے۔ ہماری طاقت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ مقاومت کے عزم اور طاقت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پابندیاں اور دہشتگرد تنظیموں کی فہرست، اسی چیز کے ساتھ جنگ ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی اس کو جنگ کے عنوان سے ہی دیکھیں۔ یہ اقتصادی جنگ ہے اور ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ فقط ہماری جنگ نہیں۔ ایران اور شام کے خلاف بھی پابندیاں سخت ہوگئی ہیں۔ وہ مقاصد جن کو جنگ کے ذریعے حاصل کرنے میں وہ ناکام ہوگئے ہیں، اب چاہتے ہیں کہ شام پر سخت پابندیوں کے ذریعے سے اسے حاصل کر لیں۔

انہں نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کا اقتصادی محاصرہ جاری ہے اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یمن کا بھی اقتصادی محاصرہ کیا گیا ہے۔ ہم سب پر پابندیاں ہیں اور ہمیں دہشتگردوں کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ یقین رکھیں کہ ہماری بنیادیں یونہی مستحکم باقی رہیں گی۔ ہم پابندیوں کا مقابلہ صبر، تحمل، زیادہ سے زیادہ انتظام و انصرام اور اپنی ترجیحات کو بہتر بنا کر کریں گے۔ ہم اس جنگ میں فتح یاب ہوسکتے ہیں۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم کبھی بھی اپنی آرزوؤں کو پا نہیں سکو گے۔ اس مقاومت کی طاقت، عزم اور اس کے اثرونفوذ میں اضافہ ہوتا رہے گا اور یہ پہلے سے بھی بڑھ کر کامیابیاں حاصل کرتی رہے گی۔ جدید قدامت پسندوں (Neo-Conservatives) کے حکومت میں آنے کے وقت خطے پر امریکی قبضے کا ایک وسیع منصوبہ موجود تھا، جو لبنان، فلسطین، شام اور ایران میں مقاومت کی پائیداری کی وجہ سے شکست کھا گیا۔ 2011ء سے شام، عراق اور یمن کی حکومتوں کو گرانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ خطے کے بہت سے ممالک اس منصوبے میں ان کے آلہ کار بھی بنے ہوئے ہیں، لیکن پھر مقاومت نے ان کے سامنے سینہ تان کر مقابلہ کیا اور انہیں اس میں بری طرح شکست ہوئی۔

یہ فلسطین سے لے کر ایران تک کے خطے میں موجود مقاومت ہی تھی، جس نے ٹرمپ کے مذموم منصوبے "صدی کی ڈیل" (The Century Deal) کا مقابلہ کیا۔ ہوسکتا ہے ہمیں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ،لیکن یہ مشکلات ہرگز ہمارے عزم و ارادہ اور ہماری پائیداری کو ختم نہیں کرسکتیں۔ ہم تدبیر اور محکم ارادے کے ساتھ اس جنگ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے تمام عالمی قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ہمیشہ کے لب و لہجے اور ہمیشہ کی منطق میں سب کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے تھک جانے کی امیدیں دل سے نکال دیں، کیونکہ ہم قابض طاقتوں کے خلاف مقاومت کے عمل سے تھکے نہیں ہیں، اس لئے کہ ہم اپنی (مقاومت کی) جوانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے مایوس ہونے کی آرزوئیں اپنے دلوں میں نہ سموئیں، کیونکہ ہم کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مقابلہ ایک مشکل اور طولانی مقابلہ ہے، جس کے لئے وقت، صبر، استقامت اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔

انہوں نے لبنان میں حزب اللہ کی اہمیت اور فعالیت کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جنوبی علاقوں میں اپنی سرزمین کی خاطر جنگ لڑی ہے اور اسی طرح شام میں بھی ہم لبنان کے دفاع کی خاطر لڑے ہیں۔ آج حمایت مقاومت اسلامی کمیٹی کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں چاہیئے کہ ہم کرپشن کے خلاف جنگ کو اپنے ہدف تک پہنچائیں، تاکہ ہمارا ملک قوی، باعزت، سربلند اور طاقتور ہو کر تمام تر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کرپٹ، چور اور عوام کا مال لوٹنے والے ہمارے کرپشن کے مقابلے کے دوران اپنا دفاع کریں گے اور کبھی بھی اس مقابلے کو وسعت اختیار کرنے نہیں دیں گے، کیونکہ اگر یہ مقابلہ کامیاب ہوگیا تو وہی لوگ ہوں گے، جو اس کی قیمت ادا کریں گے اور پھر سزا بھی بھگتیں گے۔
خبر کا کوڈ : 782178
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش