0
Sunday 10 Mar 2019 14:55
ایران کی سلامتی کو لاحق ہر خطرہ ہمارے لئے غیر قابل قبول ہے

ایران سختی کے دنوں میں عراق کیساتھ رہا، ہم بھی سختی کے دنوں میں اسکے ساتھ ہیں، برہم صالح

عراق مظلوم فلسطینی عوام کے حق اور انکی اپنے مسلمہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتا ہے
ایران سختی کے دنوں میں عراق کیساتھ رہا، ہم بھی سختی کے دنوں میں اسکے ساتھ ہیں، برہم صالح
اسلام ٹائمز۔ عراق کے صدر برہم صالح نے ہفتے کے دن اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے بغداد کے دورے سے ایک روز قبل عراق کے صدارتی محل میں صحافیوں سے گفتگو کی۔ انہوں نے اس دوستانہ ملاقات میں جو 50 منٹ تک جاری رہی، ایران عراق تعلقات، اپنے ایران کے آخری دورے اور رہبر انقلاب سے ملاقات، عراق کے علاقائی اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات اور خطے کے معاند ممالک کے درمیان ثالثی، دہشتگردی کے ساتھ مقابلہ، بغداد اور تہران کے درمیان تعلقات پر ٹورازم کا اثر، زیارت اربعین کی عظمت، دونوں ممالک کے درمیان ویزا فری انٹری، عراق اور شام کے درمیان تعلقات کی اہمیت اور عراق کی بشارالاسد کی قانونی حکومت کی حمایت، بغداد کی فلسطینی عوام کی جدوجہد کی حمایت اور دوسرے سے بہت امور پر دونوں طرف کے سوالات کے جوابات دیئے۔ جناب برہم صالح نے صحافیوں کے ساتھ میٹنگ کے شروع میں اپنا خطاب بھی فارسی زبان میں کیا اور اس دوران رہبر معظم انقلاب سید علی خامنہ ای کا ذکر کرتے ہوئے ان کا ایک جملہ بھی فارسی میں نقل کیا کہ مقام معظم رہبری نے فرمایا کہ دونوں اقوام کے درمیان مہرومحبت پر مبنی تعلقات قوی سے قوی تر ہو رہے ہیں۔

صدر برہم صالح نے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے عراق کے دورے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صدر روحانی کا بغداد کا دورہ بہت اہم ہے اور بہت ہی اہم حالات میں انجام پا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات کہ اس دورے میں انجام پانے والا ہر کام دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی غرض سے ترتیب دیا گیا ہے۔ تین ماہ قبل جب میں ایران میں تھا تو رہبر معظم، صدر روحانی اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں سے میری عراق ایران تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی تھی اور اب صدر روحانی کا دورۂ بغداد بھی دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی قبلی گفتگو کی تکمیل کے سلسلے میں ہے۔ امید ہے کہ صدر روحانی کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور دوسرے تمام تعلقات کو مزید گہرائی بخشے گا اور دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی، سیاست اور علاقائی سطح پر متفقہ پالیسی کے امور میں بھی خاطرخواہ پیشرفت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہماری 1400 کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے اور اسی طرح ہمارے دیرینہ تہذیبی، اجتماعی، تاریخی اور دینی تعلقات بھی قائم ہیں۔ ہم دونوں ملکوں کے بہت سے مشترکہ مفادات بھی ہیں، البتہ سیاسی مفادات وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں، تاہم ہمارے تاریخی، اجتماعی اور تہذیبی اصول اور مشترکہ مفادات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں لمبے عرصے پر محیط گہرے آپسی تعلقات کے بارے میں غور و فکر کریں۔ ہم طولانی سرحدوں اور مشترک تہذیبی و سیاسی امور پر بات چیت کریں گے۔ اسی طرح ہم دونوں ممالک کے درمیان موجود معاشی اور دوسرے مشترکہ امور پر بھی بات چیت کریں گے۔

عراقی صدر نے ایران پر اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں عراق پر ایرانی قرضے کے چکائے جانے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ میں یہ کہہ دوں کہ عراق ایران پر لگائی جانے والی یکطرفہ امریکی پابندیوں کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھی ان پابندیوں سے متاثر ہوں گے، لیکن کبھی بھی ان کا حصہ نہیں بنیں گے۔ عراق اپنے دوست اور ہمسایہ ملک ایران کے مفادات کے حصول پر اصرار کرتا ہے۔ ہم تناؤ کی فضا کو کم کرکے اپنے دوست ملک ایران کو پابندیوں کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف کو کم کرنے لئے اپنی تمام تر کوششیں اور وسائل بروئے کار لائیں گے۔ عراق ایران کی مدد کرنا چاہتا ہے، تاکہ اسے پابندیوں کی وجہ سے ملنے والی تکالیف کچھ کم ہوسکیں۔ ان پابندیوں سے نہ صرف عراق بلکہ پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے۔

جناب برہم صالح نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جیسا کہ میں نے تہران میں کہا تھا کہ ایران صدام کی آمریت اور استبداد کے خلاف عراقی قوم کے ساتھ کھڑا رہا، بہت سے عراقی شہریوں نے ایران میں پناہ لے رکھی تھی، جبکہ ایران نے کھلے بازوؤں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ ایران نے ابھی داعش کے ساتھ مقابلے میں بھی ہمارے شانہ بشانہ رہ کر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ لہذا ہم اس سے کمتر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ "ایران تمہارا شکریہ"۔ ایران نے واقعاً سخت دنوں میں ہماری مدد کی۔ البتہ ایران کی مدد کرنے کے سلسلے میں کم از کم بات یہ ہے کہ ہم ان پابندیوں پر اپنا قابل قدر ردعمل ظاہر کریں۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ عراق اس خطے کا ایک اہم جزو ہے،جبکہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ ہمارے ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ بھی بہت اہم تعلقات قائم ہیں۔

یہ ہمارا سیاسی جغرافیہ ہے، جو نہ صرف عراق بلکہ پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ عراق نے ماضی میں خطے کے اندر سیاسی کشمکش کا پلیٹ فارم مہیا کر رکھا تھا، لیکن اب ہم چاہتے ہیں کہ عراق پورے خطے میں اتفاق اور اتحاد کا پلیٹ فارم بن جائے، لہذا عراق میں کسی دوسرے ہمسایہ ملک کے لئے کسی قسم کی معاندانہ سرگرمیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیئے۔ نہ ہمارا آئین اور نہ ہی ہمارا مفاد ہمیں ایسے کسی کام کی اجازت دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات پورے خطے میں موجود تناؤ کو کم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے یورپ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی اہم ہیں۔ عراق کے صدر برہم صالح نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ عراق کسی بھی دوسرے ملک یا ممالک کے ساتھ معاندانہ کشمکش کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرے، ہم کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ ریلوے ٹریک کے ذریعے منسلک ہو جائیں اور پھر یہ ٹریک ترکی اور دوسرے خلیجی ممالک تک چلا جائے۔ یہ نہ صرف عراق اور ایران بلکہ پورے خطے کے لئے مفید ہوگا۔ ہم اردن، ایران، کویت اور ترکی کے ساتھ آزاد تجارتی اور صنعتی زونز بنانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ عراق دوسرے ممالک کے ساتھ کشمکش اور معاندانہ کارروائیوں کا پلیٹ فارم بنے، عراق اقتصادی اور تجارتی پلیٹ فارم مہیا کرے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عراق کے جغرافیائی مقام کی وجہ سے ایسے ہدف تک پہنچنا مشکل ہے، ہاں مشکل ہے، لیکن بہت سے اچھے مواقع بھی موجود ہیں۔ عراق کے ایران کے ساتھ غیر معمولی اچھے تعلقات اور عراق کے خطے میں موجود دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات، یہ سب عوامل ملک کر خطے میں موجود امور کی آسانی کا سبب بن سکتے ہیں۔

انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران پر پابندیاں ہیں اور وہ ڈالر میں لین دین نہیں کرسکتا، اس حوالے سے عراق کو منفرد پیشکشیں بھی کی جا چکی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایران کی خریداری کے عوض عراق ڈالر ادا کر دے، کیا اس معاملے پر بھی آپ کی بات چیت ہوگی؟ کہا کہ یہ بات سمجھ لیں کہ خطے میں مختلف قسم کے طریقہ کار رائج ہیں۔ عراق میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے استقلال اور قومی سلامتی کی حفاظت کریں اور دہشتگردوں کو دوبارہ اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیں۔ عراق اور شام کے درمیان سرحدوں کی حفاظت پر بہت بہترین تعاون چل رہا ہے۔ شام کے بحران کے حل کے لئے ہم ایران سمیت خطے کے موثر ممالک کے ساتھ قریبی تعاون کر رہے ہیں۔

ایران کی سلامتی کو لاحق ہر خطرہ ہمارے لئے غیر قابل قبول ہے۔ ایران اور عراق کی سلامتی سانجھی ہے، جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ خطے کے ممالک کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ دہشتگردی بہت خطرناک کھیل ہے اور جو اس آگ سے کھیلے گا، اس کے ہاتھ بھی ضرور جلیں گے۔ انہوں نے فلسطینیوں کی جدوجہد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عراق مظلوم فلسطینی عوام کے حق اور ان کی اپنے مسلمہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ جس پر عراق میں سب لوگ متفق ہیں۔
خبر کا کوڈ : 782705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش