0
Thursday 21 Mar 2019 11:31

بہاولپور، ڈانس پارٹی نہ روکنے پر طالب علم نے پروفیسر کو چھریوں کے وار کرکے قتل کر دیا

بہاولپور، ڈانس پارٹی نہ روکنے پر طالب علم نے پروفیسر کو چھریوں کے وار کرکے قتل کر دیا
اسلام ٹائمز۔ گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج میں بی ایس انگلش سال دوم کے طالب علم نے انگریزی کے پروفیسر کو چھریوں کے وار کرکے قتل کر دیا۔ ذرائع کے مطابق ملزم نے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی، جس پر پولیس نے موقع واردات سے آلہ قتل سمیت ملزم خطیب کو گرفتار کر لیا، جبکہ پروفیسر کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے قائداعظم میڈیکل کالج منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم خطیب سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے، تاہم ابھی تک قتل کرنے وجہ سامنے نہیں آسکی۔ واضح رہے کہ حملہ آور طالب علم کا کہنا ہے کہ مقتول استاد کلاس میں فحاشی پھیلا رہا تھے۔ صادق ایجرٹن میں شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر خالد حمید کالج میں اپنے دفتر میں موجود تھے، جب انہیں طالب علم نے مبینہ طور پر پہلے مخاطب کیا اور پھر چھری کے وار کیے۔

جائے وقوع پر موجود پولیس کی ابتدائی معلومات کے مطابق شعبہ انگریزی میں بی ایس پروگرام کے پانچویں سمیسٹر کے طالب علم خطیب حسین کا کالج میں ویلکم پارٹی کے انعقاد کے حوالے سے پروفیسر خالد حمید سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ پروفیسر خالد حمید اس تقریب کی نگرانی کر رہے تھے، جو کالج میں نئے آنے والے طلبہ کو خوش آمدید کہنے کے لیے 21 مارچ کو منعقد کی جانی تھی۔ پولیس کے مطابق طالب علم خطیب حسین اس تقریب کا مخالف تھا، کیونکہ اس کے مطابق طلباء اور طالبات کی مخلوط محفل غیر اسلامی تھی۔ پولیس نے کہا کہ پروفیسر سے تلخ کلامی کے بعد خطیب حسین نے خالد حمید کے سر اور پیٹ پر چھری سے وار کیا۔ پروفیسر خالد حمید کو بہاولپور کے وِکٹوریا ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ پولیس نے ملزم کو حملے میں استعمال ہونے والی چھری کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔

اپنی اعترافی ویڈیو میں 20 سالہ خطیب حسین کا کہنا تھا کہ اس نے پروفیسر خالد حمید پر اس لیے حملہ کیا کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر اسلام مخالف بات کی تھی، جبکہ اسے اپنے عمل پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ تھانہ سول لائن کی پولیس نے ملزم کے خلاف مقتول پروفیسر کے بیٹے کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں گستاخی انتہائی حساس معاملہ ہے، جہاں ثابت نہ ہونے والے الزامات پر بھی قتل اور تشدد جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک بے نامی خط گردش کر رہا ہے، جس میں کسی طالب علم کا نام لکھے بغیر ڈپٹی کمشنر بہاولپور کو درخواست دی گئی ہے کہ کالج میں سالانہ فن فیئر کی ریہرسل جاری ہے، جسے رکوایا جائے، اس فن فیئر کو غیر اسلامی کہا گیا ہے۔

ایس ایچ او تھانہ سول لائن فرحان حسین کا کہنا ہے کہ تفتش کا آغاز ہوچکا ہے، اس واقعہ کے تمام پہلوؤں پر تفتش کی جائے گی، ملزم ہمارے پاس گرفتار ہے اور انکوائری چل رہی ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کالج میں پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے پروفیسر کو قتل کیا گیا ہے تو انکا کہنا تھا ملزم کے فوری بیان میں یہ بات سامنے آئی ہے، لیکن دیکھنا یہ کہ آیا ملزم سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، ہوسکتا ہے کہ ملزم کو پروفیسر کے ساتھ کوئی اور رنجش ہو، لیکن وہ مذہب کی آڑ میں پارٹی کا بہانا بنا رہا ہو، مقدمہ درج ہوچکا ہے، بہت جلد اس قتل کے حقائق سامنے آجائیں گے. بہاولپور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر امیر تیمور نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دی ہے، جو قتل کے محرکات کی تحقیق کرے گی اور دیکھے گی کہ آیا اس قتل میں مزید افراد ملوث ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب مقتول پروفیسر خالد حمید کے بیٹے ولید خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کالج میں فن فیئر کا معاملہ تھا، جسے رکوانے کیلیے میرے والد کو قتل کیا گیا۔ ولید خان نے کہا کہ میرے والد حکومت پاکستان کے ملازم تھے، انہیں جھوٹا الزام لگا کر قتل کیا گیا، جنوبی پنجاب کے نعرے والے وزیراعلیٰ پنجاب نے ابھی تک کوئی پیروی یا تحفظ کی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد کو جھوٹے بیانیہ کی وجہ سے قتل کیے جانے پر پورا شہر خوف میں مبتلا ہے، ذمہ داروں سے پوچھتا ہوں، آخر کب تک اور کتنی زندگیاں اسی طرح جھوٹے الزامات پر لی جاتی رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا تعلیمی اداروں میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد بیرونی دباؤ پر کیا جائے گا، کیا ہماری زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 784399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش