0
Wednesday 24 Apr 2019 17:35

سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈ پر ٹیکسز بحال کر دیئے

سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈ پر ٹیکسز بحال کر دیئے
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل فون کارڈز پر معطل تمام ٹیکس بحال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ عدالت عالیہ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
 چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ پبلک ریوینیو اور ٹیکس پر معاملات پر مداخلت کئے بغیر مقدمے کو نمٹاتے ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ سال 2018ء میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت اور موبائل فون کمپنیوں کو عوام سے ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا تھا۔ آج سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس نمٹاتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکسز بحال کر دیئے اور حکم امتناع ختم کر دیا۔ آج مورخہ 24 اپریل 2019ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، تو اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کے نفاذ پر ازخود نوٹس کی مثال نہیں ملتی۔ ٹیکسز پر حکم امتناع کے باعث حکومت اپنی آمدن کے بڑے حصے سے محروم ہے، جسے ٹیکس استثناء چاہیئے متعلقہ کمشنر سے رجوع کرے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ موبائل فون کارڈ ٹیکس کا نوٹس پانچ ججز کے حکم پر لیا گیا۔ ان لاکھوں لوگوں سے ٹیکس لیا جا رہا تھا جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ ٹی وی لائسنس کا ٹیکس بھی ہر شہری سے لیا جاتا ہے۔ ہر ٹی وی دیکھنے پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا لیکن وہ ٹیکس دیتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ٹیکس کے اہل نہیں، ان سے پیسہ لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس نے کیس کا محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کریگی، عدالت یہ خود نوٹس مقدمہ نمٹاتی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال 11 جون 2018ء کو سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی معطل کر دی تھی۔ اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ لوگوں سے لوٹ مار کی جا رہی ہے، مقررہ حد سے زیادہ استعمال پر ٹیکس وصول کریں۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین ایف بی آر عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 13 کروڑ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ موبائل کال پر چارجز کاٹنا کمپنیوں کا ذاتی عمل ہے۔ ملک بھر میں 5 فیصد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جو ٹیکس نیٹ میں نہیں، ان سے ٹیکس کیسے لیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ریڑھی والا فون استعمال کرتا ہے، وہ ٹیکس نیٹ میں کیسے آ گیا؟ 13 کروڑ افراد پر موبائل ٹیکس کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ کے درمیان فرق نہ کرنا امتیازی سلوک ہے۔ آئین کے تحت امتیازی پالیسی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے موبائل فون کمپنیوں اور ایف بی آر کی طرف سے عائد تمام ٹیکس معطل کرتے ہوئے 2 روز میں احکامات پر عمل درآمد کرنے کی مہلت دے دی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے 100روپے کے لوڈ پر 63 روپے آنا غیر قانونی ہے، موبائل فونز کارڈرز پر ٹیکس وصولی کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے۔

موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے معاملے پر ایف بی آر نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ٹیکس کے باوجود پاکستان میں موبائل فون کا استعمال کئی ممالک سے سستا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسز کی شرح بنگلا دیش، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سے کم ہے۔ دیگر ممالک میں صارفین سے کئی اقسام کے ٹیکس لئے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل فون کمپنیوں کے تمام ٹیکسز بحال کر دیئے۔ اب 100 روپے کے موبائل فون کارڈ پر 100 روپے کا بیلنس نہیں ملے گا۔ میڈیا کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکسز سے متعلق اہم کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے وفاق اور صوبوں کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو اب سنادیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہےکہ سپریم کورٹ ٹیکسوں کے معاملے میں کوئی حکم جاری نہیں کرسکتی۔ واضح رہےکہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکسز سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور عبوری حکم کے تحت ٹیکسز معطل کردیئے تھے۔
 
خبر کا کوڈ : 790456
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش