1
0
Monday 29 Apr 2019 23:06

سعودی عرب میں قتل کئے گئے37 اور موت کا انتظار کرتے 25 دوسرے قیدیوں کے بارے حقائق سامنے آگئے

سعودی عرب میں قتل کئے گئے37 اور موت کا انتظار کرتے 25 دوسرے قیدیوں کے بارے حقائق سامنے آگئے
اسلام ٹائمز۔ امریکی نیوز چینل "سی این این" نے سعودی عرب میں حال ہی میں تلوار کے ذریعے قتل کئے گئے 37 قیدیوں کے بارے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان قیدیوں کے سر ان کے اعتراف جرم کے بعد قلم کئے گئے ہیں جبکہ عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل کئے گئے اکثر قیدیوں نے نہ صرف اعتراف جرم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی بےگناہی پر اصرار بھی کیا ہے۔ سعودی عرب کی شاہی حکومت نے گذشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پر حکومت کے خلاف کمنٹس دینے کے جرم میں گرفتار کئے گئے 32 شیعہ علماء اور دینی طلاب سمیت 37 افراد کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سرقلم کرکے قتل کر دیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق قتل کئے گئے ان قیدیوں میں سے اکثر نہ صرف اپنی بےگناہی پر اصرار کر رہے تھے بلکہ اپنے اوپر ہونے والے جسمانی تشدد کی بھی شکایت کر رہے تھے۔ متعلقہ عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقتولین میں سے بعض نے اپنے اوپر ہونے والے جسمانی تشدد کا باقاعدہ ثبوت بھی پیش کیا تھا، جبکہ بعض دوسرے مقتول قیدیوں نے عدالت کی طرف سے اپنی سزا میں کمی کی توقع پر بادشاہ "ملک سلمان" اور ولی عہد "محمد بن سلمان" کے ساتھ اپنی وفاداری کا حلف بھی اٹھا لیا تھا جبکہ 2016ء میں سنے جانے والے اس مقدمے کے قاضیوں کی نظر میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی اور انہیں بدستور دہشتگرد مجرم قرار دے کر ان کی موت کی سزا کو باقی رکھا گیا۔ سعودی شاہی حکومت کی طرف سے عبرت کا نشان بنائے گئے ان سیاسی قیدیوں میں بیس سال سے کم عمر نوجوان بھی تھے، جن میں سے بعض کو سر کاٹنے کے بعد سرعام صلیب پر بھی چڑھایا گیا۔ سزائے موت پانے والے نوجوانوں میں ایک "مجتبیٰ السویکت" بھی ہے ،جس کی عمر 2012ء میں گرفتاری کے وقت صرف 17 سال تھی جبکہ وہ امریکی میچیگن یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد وہاں جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔

نیوز چینل "سی این این" نے 2016ء میں قائم ہونے والی عدالت کی سینکڑوں صفحات پر مشتمل دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ عنقریب 25 دوسرے سعودی شہریوں کے سر قلم کئے جانے کا بھی امکان ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے 11 قیدی ایران کے لئے جاسوسی کے الزام میں جبکہ 14 دوسرے قیدی شیعہ نشین علاقے "عوامیہ" میں حکومتی شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کے جرم میں 2011ء اور 2012ء میں گرفتار کئے گئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ سعودی شاہی حکومت کا ہمیشہ یہی دعویٰ رہی ہے کہ سزائے موت کے قیدیوں کو ان کے اعتراف جرم کے بعد قتل کیا جاتا ہے، ان قیدیوں کی عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے جسمانی تشدد کی شکایت کرتے ہوئے عدالت میں یہ بیان دیئے ہیں کہ ان سے تشدد کے ذریعے زبردستی یہ اعترافات لئے گئے ہیں، جن کی قانونی اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایسے ہی ایک "میر الآدم" نامی قیدی سے عدالتی کارروائی کے دوران جب اعتراف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ یہ الفظ میرے نہیں ہیں، میں نے یہ الفاظ نہیں لکھے جبکہ یہ الفاظ خود تفتیشی افسر نے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہیں۔ علاوہ ازیں سوموار کے دن سعودی عرب میں قتل کئے جانے والے قیدیوں کے درمیان ایک 27 سالہ آنکھوں اور کانوں سے معذور شخص بھی تھا۔ مذکورہ عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عدالت نے مقتول قیدیوں کی طرف سے جسمانی تشدد اور زبردستی اعتراف لئے جانے پر مبنی شکایات پر تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا تھا اور نہ ہی کوئی جواب دیا ہے۔ سعودی شاہی حکومت نے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین بلکہ کسی بھی بہانے سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کے لئے عدالت کے تمام رستے بند کر رکھے ہیں، حتیٰ غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے مطابق 2011ء سے 2018ء کے درمیان گھریلو کام کاج کے لئے سعودی عرب جانے والے 103 انڈونیشی محنت کشوں کا مختلف جرائم میں سر کاٹ دیا گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 791365
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Syed Khizar Abbas kazmi
Pakistan
Imam Ali(as) ka farman hy k hakomat kufr sy to qaim reh sakti hy zulm sy nahi Allah Pak zalimon ko jald kefir ekirdar tak pohnchay
ہماری پیشکش