0
Saturday 4 May 2019 23:23

اگر اسرائیلی فوج لبنان میں داخل ہوئی تو پوری دنیا اس کی تباہی کا نظارہ کرے گی، سید حسن نصراللہ

اگر اسرائیلی فوج لبنان میں داخل ہوئی تو پوری دنیا اس کی تباہی کا نظارہ کرے گی، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز - حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کے اہم شہید کمانڈر "سید مصطفی بدرالدین" المعروف "ذوالفقار" کے یوم شہادت کی مناسبت سے منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہید بدرالدین کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ وہ اپنی جوانی کے آغاز سے ہی مزاحمتی مرکز کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے اور بالآخر مرکزی کمانڈرز میں ایک قرار پائے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل بعض یورپی اور خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر  ایک خاص ماحول بنانا چاہ رہا ہے جس کے لئے وہ چوری چھپے اور سرعام تجزیاتی کالموں اور خبروں میں یہ کہلواتا ہے کہ اسرائیل لبنان پر حملہ کرنے والا ہے جس کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ ہونے والی ہے۔ آج میں تمام لبنانیوں اور لبنان کے حالات پر نظر رکھنے والوں کے لئے یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ڈرانے دھمکانے کی اس سیاست کا مقصد بڑے پیمانے پر نفسیاتی جنگ شروع کرنا ہے تاکہ لبنان کی حکومت اور عوام کو اپنے دباؤ میں لا کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

یہ لبنان کی طاقت ہے کہ وہ فوج، متحد قوم اور مضبوط مزاحمتی تحریک کا حامل ہے۔ دشمن نے مزاحمتی تحریک کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ پر حملہ نہ کیا جائے تو مزاحمت کا ساتھ دینا چھوڑ دیں۔ یہی مقصد ہے جس کے لئے سفیر، سفارتکار اور (امریکی وزیر خارجہ) مائیک پمپیو لبنان کے چکروں پر ہیں، وہ یہی تو منوانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ سرحدوں کے مسئلے میں، دریائی حدود، شعبا فارمز یا مزاحمتی تحریک کے اسلحے اور راکٹوں کے بارے میں ہماری کوئی بات نہ مانیں تو اسرائیل آپ پر حملہ کر دے گا۔

ان کے رعب و دبدبے تلے نہ آئیں اور نہ ہی انہیں اپنے اوپر نفسیاتی جنگ مسلط کرنے دیں۔ لبنان فوج اور مزاحمتی تحریک کے ہوتے ہوئے ایک طاقتور ملک ہے۔ ہمارے پاس حقیقی اور بھاری طاقت موجود ہے جبکہ اسرائیلی فوج کے اندر بےشمار کمزور نکات موجود ہیں جن کا اعتراف دشمن کے بڑے بڑے جنرل خود کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ ہماری مزاحمتی تحریک آج ان تمامتر پابندیوں کے مقابلے میں جو لمبے عرصے تک باقی نہیں رہ سکتیں، طاقتور ہے۔ کیا اسرائیل جنگ چھیڑنا چاہتا ہے؟ لبنان کے خلاف جنگ چھپڑنے کا مسئلہ کیسا ہے؟ کچھ اسرائیلی کہتے ہیں (لبنان کے خلاف) جنگ کم وقت میں اور کامیاب ہونی چاہئے۔ کیا وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں؟ اپنے دفاع یا ان پر حملے کے حوالے سے ہماری مزاحمتی طاقت، حتی زمینی فوج کے اعتبار سے بھی، بہت زیادہ ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ ہماری مزاحمتی تحریک "الجلیل" شہر میں داخل ہونے کی طاقت رکھتی ہے۔ اسرائیل تو غزہ کے مکمل طور پر محاصرے میں ہونے کے باوجود وہاں داخل ہونے سے ڈرتا ہے۔

آج شہید کمانڈر بدرالدین کے یوم شہادت پر مزاحمتی تحریک کے شہداء کی نیابت میں یہ بات قطعی طور پر کہتا ہوں اگر اسرائیلی فوجی دستے لبنان کے جنوبی علاقے میں داخل ہوئے تو دنیا بھر کے ٹی وی کیمرے انہیں تباہ ہوتا دیکھیں گے۔ اے لبنانیو! وہ وقت گزر گیا کہ جب جنوبی لبنان کے علاقے پر صرف ایک بریگیڈ کے ذریعے قبضہ کر لیا جاتا تھا جبکہ اب بھی لبنان میں بعض لوگ اسرائیل کے مقابلے میں کمزوری کا احساس کرتے ہیں اور ہتھیار ڈالنے کو تیار ہیں لیکن وہ جنہیں اپنی عوام، مزاحمتی تحریک اور فوج پر اعتماد ہے، انہیں دشمن کے رعب و دبدبے تلے دبنا نہیں چاہئے اور نہ ہی انہیں دشمن کا کوئی مطالبہ قبول نہیں کرنا چاہئے اور اپنی سرزمین کا حتی ایک بالشت حصہ بھی دشمن کے ہاتھ میں جانے نہیں دینا چاہئے۔

میری دوسری بات اسرائیل اور مقبوضہ شعبا فارمز کے بارے میں ہے۔ وہ فرد جو اس زمین (شعبا فارمز) کے لبنانی سرزمین ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دعوی کر سکتا ہے، لبنانی حکومت ہے۔ شعبا فارمز کا مسئلہ سال 2000ء سے چھیڑا جا چکا ہے جبکہ آج تک اس پر لمبی چوڑی بحثیں بھی ہو چکی ہیں۔ لبنانی حکومت نے شعبا فارمز کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا ہوا ہے۔ جب تک حکومت، اپنے تمامتر ذیلی اداروں کے ہمراہ اس زمین کو لبنان کی مقبوضہ زمین قرار دیتی ہے ہمیں (اس پر) اپنی مزاحمتی تحریک جاری رکھنے میں کوئی مشکل نہیں، ہم بھی اس زمین کو لبنان کی مقبوضہ زمین تصور کریں گے اور اس بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں ہمیں کوئی پروا نہیں۔ اگر وہ کہیں کہ یہ زمین لبنانی زمین ہے، شامی ہے یا فلسطینی تو بھی کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ بالآخر ہماری ہی قوم سے متعلق ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں شہید سید مصطفی بدرالدین کی شام میں موجودگی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شام میں (دہشتگردوں سے مقابلے کے لئے) ہماری موجودگی پر مبنی ہمارے فیصلے کا صحیح ہونا واضح سے واضح تر ہوتا جا رہا ہے۔ جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے، جتنے نقاب پلٹتے جا رہے ہیں، دستاویزات سامنے آ رہی ہیں اور سابقہ حکومتی عہدیداروں، وزیر خارجہ، وزیراعظم وغیرہ کے بیانات آ رہے ہیں، واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مزاحمت نے صحیح زمان و مکان پر وہاں موجود ہونے کا سو فیصد درست فیصلہ تھا۔

انہوں نے عراق و شام پر مسلط کردہ دہشتگرد گروہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شام میں امریکی-سعودی سازش چل رہی تھی جس میں خلیج فارس کے بعض ممالک بھی شریک تھے۔ امریکہ، سعودی عرب اور ان ممالک نے باہر سے لائے ہوئے لوگوں کے ذریعے اور ان پر پیسوں کی بارش کر کے شام میں تبدیلی لانے کی کوشش کی تھی۔ یہ سب داعش سے ملنے والی دستاویزات سے ثابت ہے۔ داعش کیسے شام کے 40 سے 45 فیصد رقبے پر مسلط ہو سکتی تھی؟ الفرات کے زیادہ تر علاقے پر، دیرالزور، المیادین، صحرائے شام سے تدمر تک، حمص کے اطراف میں، (دمشق کے کنارے) یرموک کیمپ سے لے کر سویداء تک، حماہ کے مشرق میں، حمص اور مشرقی حلب تک، جو شام کے رقبے کا 45 فیصد بنتا ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ داعش آدھے سے زیادہ عراق پر بھی قابض تھی اور کربلا و بغداد کے نزدیک تک آ چکی تھی۔ یہ کہاں سے آئی تھی؟ انہوں نے اتنا اسلحہ کہاں سے لیا تھا؟ پیسے کس سے لئے تھے؟ بلآخر کس سے؟ یہ باتیں ہمیں بھولنا نہیں چاہئیں۔ لبنانی ہونے کے حوالے سے بھی ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کیونکہ ہم نے بقاع (مشرقی لبنان) میں ان کے ہاتھوں زخم کھایا ہے اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اختیار ملنے کی صورت میں وہ مزید کیا کریں گے۔ داعش کیا ہے اور کس کی فکر پر مبنی ہے؟ داعش وہابی سوچ کا دوسرا نام ہے جس کا مرکز سعودی عرب ہے جبکہ یہ سوچ سعودی عرب کی طرف سے بنائے گئے دینی مدارس، یونیورسٹیوں اور مساجد میں سعودی پیسے پر پروان چڑھتی ہے اور امریکہ کے مطالبے پر پوری دنیا کے دور و نزدیک کے مقامات پر برآمد کر دی جاتی ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی وہابی سوچ دنیا میں منتشر کرے۔ لہذا مطالبہ امریکی تھا اور پیسہ سعودی۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کی انسانی طاقت کہاں سے آئی؟ پوری دنیا کے مختلف مقامات سے! ان میں سب سے زیادہ تعداد سعودی باشندوں کی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ انہیں کس کی مالی حمایت حاصل تھی اور اسلحے و سازوسامان کے لحاظ سے انہیں کون سپورٹ کر رہا تھا؟ وہ جو شام، عراق اور ایران پہنچنے کا ارادہ رکھتے تھے، ان پر اپنے بارڈرز کس نے کھولے؟ داعش کا اصلی پلان کیا تھا؟ کیا وہ ایک ڈیموکریٹک گورنمنٹ بنانا چاہتے تھے؟ کہ جس میں لوگ اپنے نمائندوں کو انتخابات کے ذریعے چن سکیں؟ داعش انتخابات کو کفر اور ہر اس شخص کے خون کو جو انتخابات کی لائن میں کھڑا ہوتا، حلال سمجھتی تھی۔ افغانستان میں ملاحظہ کریں کہ انہوں نے کیا نہیں کیا۔ یہ داعش آخر کس نے بنائی؟ امریکہ نے!

امریکہ کے یورپی کمانڈ کے جنرل وسلی کلارک نے کافی پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ داعش کو کیوں تشکیل دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دوستوں اور اتحادیوں نے بتا دیا ہے کہ انہوں نے کیا کام کیا ہے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں میں پلےکارڈز اٹھا کر مطالبے کر کے کسی کو راضی نہیں کر سکتے کہ وہ جائے حزب اللہ کے ساتھ جنگ کرے جبکہ اسی مقصد کے لئے ہم نے داعش کو بنایا ہے۔


سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے داعش کے بنائے جانے اور شام و عراق پر اس کے حملات کے پس پردہ حقائق کو سامنے لاتے ہوئے کہا کہ ان کا پروگرام تو یہ تھا کہ شام ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا لیکن شام نے ان کے آگے ہتھیار نہ ڈال کر امریکہ کی آمریت کو قبول نہ کیا، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ایران اور بعض عوامی فورسز کے علاوہ سب ہی امریکہ کے سامنے جھک چکے تھے۔ امریکا و اسرائیل کی دلی آرزو اور ان کا ہدف و مقصد یہ ہی ہے کہ شام بندگلی میں پھنس جائے۔ اسی حوالے سے میں اپنے عراقی بھائیوں کو بھی خبردار کرتا ہوں کہ ٹرمپ اپنے انتخاباتی وعدوں کو پورا کر رہا ہے کیونکہ جو کچھ اس نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا پورا کیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کو فلسطینی شہر "قدس" میں منتقل کرنا، ایران کے ساتھ کئے گئے جوہری معاہدے سے یکطرفہ خروج اور اب "سنچری ڈیل" کا منصوبہ۔ اس سے ہٹ کر جو کچھ اس نے علی الاعلان کہا ہے وہ یہ کہ سعودی عرب دودھ دینے والی گائے ہے جس کو دوہنا چاہئے اور اس نے جی بھر کے اس گائے کو دوہا ہے۔ یہ اس نے کہا تھا یا نہیں؟ اور جو اس نے کہا تھا وہ یہ کہ (اس علاقے کے) تیل پر ان کا حق ہے۔ یہ بات اس نے انتخابات کے دوران کہی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ہم جائیں گے، عراق کے تیل پر قبضہ کر لیں گے اور جتنے پیسے ہم نے خرچ کئے ہیں (عراقی تیل بیچ کر) پورے کر لیں گے۔ یہ ہے ٹرمپ کا ماضی۔ وہ عراقی تیل کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ داعش اس مقصد کے لئے استعمال کی جانے والی ایک امریکی آلۂ کار تنظیم تھی۔ مشرقی فرات کی داعش اب کہاں ہے؟ اب کہاں چلی گئی ہے؟ افغانستان میں داعش کو کون پہنچا رہا ہے؟ لہذا داعش کا بھی اپنا کام ہے۔ داعش کا منصوبہ ملکوں کی فوجوں اور قوموں کو تباہ کرنا ہے۔ اس بات سے ہٹ کر کہ داعش کو شکست ہوئی ہے یا نہیں، یہ کہنا چاہئے کہ اس نے بہت بڑے بڑے مقاصد حاصل کئے ہیں۔ کیا اس نے خون کی ندیاں نہیں بہائیں؟ اس نے جو تخریب کاری کی ہے کیا اس کی تعمیر میں سالہا سال نہیں لگیں گے؟ کیا اس نے فوجوں اور قوموں کو تباہ و برباد نہیں کیا؟

داعش کا خطرہ اب بھی ٹلا نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے۔ ان کی دعوی کردہ خلافت اور حکومت ختم تو ہو گئی اور ان کے قبضے میں موجود عراق و شام کا زیادہ تر علاقہ آزاد ہو چکا لیکن داعش، ان کے تنہاء شدہ بھیڑیئے اور ان کے خودکش بمبار اب بھی موجود ہیں۔ داعش کو یہ مشن سونپا گیا ہے کہ افغانستان کی جنگ کو جاری رکھے تاکہ اس طرح سے وہ وسطی ایشیاء  تک پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب روسی بھی بول پڑے ہیں۔ اسی طرح وہ (داعش) سری لنکا بھی پہنچی ہے۔ جن لوگوں نے سری لنکا میں یہ قتل عام کیا ہے، ان کی سوچ کے پیچھے کون ہے؟ کیا سعودی عرب نہیں ہے؟ بنابرایں داعش اب بھی ایک خطرے کے حساب میں آتی ہے۔ چاہئے تو یہ کہ داعش کا سیاسی، فوجی، سکیورٹی اور میڈیا کے حوالے سے بھرپور مقابلہ کیا جائے۔

اسی طرح یمن کی جنگ کا مسئلہ ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے بیگناہ یمنی قوم کے خلاف جنگ جاری رکھنے پر دنیا بھر میں خاموشی نہیں ہونی چاہئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تاحال تقربا اڑھائی لاکھ بےگناہ یمنی مارے جا چکے ہیں لیکن کوئی "قاتل سعودی عرب" کو روکنے والا نہیں۔ اسی طرح سعودی عرب میں (سیاسی) قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے پر بھی عالمی خاموشی نہیں ہونی چاہئے۔ بالآخر سب نے ہی کیوں چپ سادھ لی ہے؟ کیونکہ (سعودی) پیسہ انسانی مفادات پر چھا گیا ہے۔ ان لوگوں کا گناہ کیا تھا؟ احتجاج اور دھرنوں میں شرکت؟ اپنے نظریات بیان کرنا؟ اسی وجہ سے انہیں مجرم قرار دیا گیا اور تمام! ہمیں جان لینا چاہئے کہ آج ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں پیسے کے علاوہ نہ کوئی قانون ہے، نہ انسانی اقدار اور نہ ہی اخلاق۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جو اپنے سفارت خانے کے اندر جمال خاشگی جیسے شخص کو بھی بلا کر بآسانی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے جبکہ یہی سعودی عرب امریکہ کے لئے جتنی بھی خدمات انجام دے لے وہ بآسانی سعودی عرب کے بڑوں کی توہین کرتے رہتے ہیں۔

ٹرمپ سعودیوں کی توہین کرتا ہے اور امریکی اس پر ہنستے ہیں۔ مجھے سعودی بادشاہ "ملک سلمان" اچھے نہیں لگتے لیکن جب میں نے سنا کہ ٹرمپ نے ان کے بارے کیسے خیالات کا اظہار کیا، میرا دل جل کے رہ گیا۔ وہ جو لبنان میں سعودی عرب کے حامی ہیں، اب کہاں ہیں؟ اس کے بعد پھر ٹرمپ نے کیا کہا تھا؟ کہا کہ ہم نے مزید 450 بلین ڈالر سعودی عرب سے لئے ہیں۔ کیا یہ سارے پیسے آل سعود کی ذاتی کمائی ہے؟ البتہ سعودی عرب نام کی کوئی چیز موجود نہیں، اس جگہ کا نام تو "حجاز" ہے۔ تو کیا یہ پیسے آل سعود کی ذاتی کمائی ہے یا حجازی عوام کے ہیں؟ سومالیہ سے لے کر انڈونیشیا تک لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور اس صورتحال میں یہ کس کا پیسہ ہے جو ٹرمپ کو بخشا جا رہا ہے؟

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو کے بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سفارت کار جسے صبر و شکیبائی کا مظہر ہونا چاہئے، کھلے بندوں کہتا ہے کہ وہ جب سی آئی اے کا سربراہ تھا تو جھوٹ، فریبکاری اور چوری کا مرتکب ہوتا رہتا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم جھوٹ بولتے تھے، فریب دیتے تھے اور چوری کرتے تھے جبکہ اس فوجی کالج کا نعرہ جس میں ہم نے پڑھا تھا یہ تھا کہ "جھوٹ مت بولو، فریب نہ دو اور چوری نہ کرو"۔ وہ علی الاعلان کہتا ہے کہ جب میں سی آئی آے کا سربراہ تھا تو یہ کام کیا کرتا تھا۔ اب وہ امریکی ڈپلومیسی کے ادارے کا سربراہ ہے۔ ایک ایسا شخص جو اعتراف کرتا ہے کہ جھوٹا، فریب کار اور چور ہے! پس وہ لوگ جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکی آئیں گے اور ان کی مشکلات کو حل کر دیں گے، جان لیں کہ اگر امریکی آئیں گے تو اپنے مفادات کی خاطر حکم چلائیں گے جبکہ امریکیوں کے لئے اسرائیل اور ان کے اپنے مفادات سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں۔

سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اپنی گفتگو کے آخر میں دوبارہ داعش کے اور اس کے کسی بھی قسم کے نئے مشن سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ داعش کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں اور عنقریب ہی وہ کوئی نیا کام پیدا کر لے گی۔
 
خبر کا کوڈ : 792294
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش