0
Saturday 11 May 2019 18:40

پشاور کے شہری نے انجانے میں خودکش بمبار کو تھپڑ مار دیئے

پشاور کے شہری نے انجانے میں خودکش بمبار کو تھپڑ مار دیئے
اسلام ٹائمز۔ فرض کریں اپ کو کہیں جانے کی جلدی ہو اور اچانک کوئی حواس باختہ موٹر سائیکل سوار غلط سمت سے آپ کی گاڑی سے چپک کر گر جائے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟ یقیناً آپ کو غصہ آئے گا، تو تو، میں میں بھی ہوسکتی ہے اور ہاتھا پائی بھی۔ فرض کریں کہ آپ گاڑی سے اترتے ہیں اور موٹر سائیکل سوار نوجوان کو گالیوں کے ساتھ ساتھ دو تین تھپڑ بھی جڑ دیتے ہیں اور خوفزدہ نوجوان عجیب سی نظروں سے آپ کو دیکھتا ہوا اپنی خراب موٹر سائیکل تھام کر پیدال کھسک جاتا ہے اور آپ جاتے جاتے ایک اور گالی نکال کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ فرض کرنے کا یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر سوچیں کہ اگلے روز آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ انجانے میں جس نوجوان کی تھپڑوں اور گالیوں سے تواضح کی تھی، وہ کوئی عام راہ گیر نہیں بلکہ ایک خودکش بمبار تھا، جو موٹر سائیکل میں بارود بھر کر قریبی پارک میں تحریک انصاف کے اجتماع کو نشانہ بنانے کیلئے نکلا، لیکن اس حادثہ نے اس کا سارا منصوبہ خراب کر دیا تو آپ پر کیا گزرے گی اور نہ جانے کیسے کیسے خیالات آپ کے دل و دماغ کو جکڑ لیں گے۔

یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ پشاور میں ایسا ہی واقعہ سامنے آیا۔ 15 اپریل کو حیات آباد آپریشن کے دوران پانچ دہشت گردوں کو پولیس اور سکیورٹی فورسز کے مشترکہ طویل آپریشن میں ہلاک کیا گیا، جبکہ ایک نوجوان دہشت گرد یاسر شمس کو زندہ حراست میں لیا گیا۔ یاسر شمس نے پشاور کی نجی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لی ہے اور ایک ادارے میں کمپیوٹر آپریٹر کی ملازمت کرتا تھا۔ اس کے جو پانچ ساتھی آپریشن میں مارے گئے، انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر قاتلانہ حملہ اور انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ریلی میں صوبائی وزراء عاطف خان اور شاہرام ترکئی کو خودکش حملے میں نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یاسر شمس نے سینیئر سول جج کی عدالت میں تحریری طور پر اقبال جرم کیا، جس میں یہی کہانی بیان کی۔

اس کا کہنا تھا کہ افغان خودکش حملہ آور پی ٹی آئی ریلی کو نشانہ بنانے کیلئے بھیجا گیا تھا، جس کا راستے میں ایک موٹر کار سوار کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہوا اور بارود سے بھری موٹر سائیکل خراب ہوگئی جبکہ اس سارے معاملے میں خودکش حملہ آور کو ایک شہری کے تھپڑ بھی کھانے پڑ گئے۔ اسی حادثہ کے باعث حملہ کا منصوبہ ملتوی ہوگیا۔ اپنے بیان میں یاسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام کو اپنے ٹھکانے پر واپسی کے بعد سارا گروہ منصوبہ کی ناکامی پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتا رہا۔ دہشت گردی میں اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ملوث ہونا نئی بات نہیں، لیکن حیات آباد آپریشن دیگر حوالوں سے بھی مختلف رہا۔

واقعہ کے بعد ہلاک تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور انہیں کئی لوگ بے گناہ قرار دیتے رہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہ مکان کو بارود سے گرانے اور 17 گھنٹے طویل آپریشن پر بھی کئی افراد سوالات اُٹھاتے رہے۔ اگرچہ پولیس اور سکیورٹی اداروں نے کالعدم تحریک طالبان سے وابستہ پانچ دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی، لیکن یاسر کی گرفتاری کو خفیہ رکھا گیا، جس نے دوران تفتیش پورے گروہ کی سرگرمیوں سے پردہ اُٹھایا۔ عدالت میں یاسر کے اقبال جرم کے بعد سوشل میڈیا پر ہلاک دہشت گردوں کی حمایت میں جاری مہم بند ہوگئی اور ساتھ ہی بعض مذہبی جماعتوں کے اعتراضات اور سوالات کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 793648
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش