0
Friday 24 May 2019 22:05

گلگت میں سانحہ 1988ء کے شہداء کی برسی کی تقریب

گلگت میں سانحہ 1988ء کے شہداء کی برسی کی تقریب
اسلام ٹائمز۔ مرکزی جامع امامیہ مسجد گلگت میں سانحہ 1988ء کے شہداء کی برسی منائی گئی، نماز جمعہ کے بعد منعقد ہونے والے اجتماع میں قائد ملت جعفریہ سید راحت حسین الحسینی اور جید علماء کرام سمیت عوام کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ برسی کے اجتماع سے معروف عالم دین شیخ مرزا علی، شیخ نیئر عباس مصطفوی، شیخ الطاف حسین مشہدی اور مرکزی امامیہ کونسل کے صدر وزیر مظفر عباس سمیت دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت سانحہ 1988ء برپا کیا گیا، جس میں سینکڑوں مظلوم افراد شہید ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں خاندان بے گھر ہوگئے، مگر افسوس کہ 31 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باؤجود بھی مظلوموں کی آہ و بکا نہیں سنی جا رہی ہے، صاحب اقتدار لوگوں نے اس عظیم سانحے کا کوئی نوٹس نہیں لیا، جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور بے چینی پائی جا رہی ہے۔

مقررین نے کہا کہ علاقے میں امن و اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی امن کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔ علماء نے اپنے خطاب میں کہا کہ قائد ملت جعفریہ علامہ سید ضیاء الدین رضوی کی شہادت سے  اب تک اس ہائی پروفائل کیس میں حکومت اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ناقابل برداشت ہے اور ہم آج کی اس برسی کے توسط سے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت شہید ضیاء الدین قتل کیس کی از سر نو تحقیقات کرتے ہوئے اصل قاتلوں اور سازش کاروں کو بے نقاب کرے، تاکہ ملک اور علاقہ دشمن قوتوں کا پتہ چل سکے۔ علماء نے سانحہ کوہستان، سانحہ لولوسر، سانحہ چلاس، سانحہ دلناٹی، سانحہ مناور اور دیگر دہشت گردی کے واقعات جن میں کئی بے گناہ مومنین کو بے دردی سے قتل کیا گیا، میں ملوث سازش کاروں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرتے ہوئے قاتلوں اور سازش کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا، تاکہ علاقہ میں امن و امان کیلئے قربانیاں دینے والی قوم ملت جعفریہ کے ساتھ انصاف ہوسکے اور صحیح معنوں میں ملک دشمن قوتوں کے خلاف کارروائی میں مدد مل سکے۔

اجتماع کے آخر میں متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ 1988ء میں 100 سے زائد مومنین کی شہادت، قرآن پاک، مساجد، امام بارگاہوں اور مومنین کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا، اس منظم دہشت گردی کے واقعات کے اصل حقائق کو منظر عام پر نہیں لایا گیا، لہذا وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس سانحے کی ازسر نو تحقیقات کرکے حقائق سامنے لائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سید ضیاء الدین رضوی کی شہادت سے لے کر اب تک اس ہائی پروفائل کیس میں حکومت اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے، لہذا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کرکے اصل قاتلوں اور سازش کاروں کو بے نقاب کیا جائے نیز سانحہ لولوسر، کوہستان، چیلاس سمیت دیگر سانحات اور دہشت گردی کے واقعات میں بے گناہ مومنین کو قتل کیا گیا اور تاحال قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ خطے میں میرٹ کی پامالی، مسلکی بنیادوں پر بغیر ٹیسٹ انٹرویو بھرتیاں، سرکاری اداروں کی من پسند علاقوں میں منتقلی معاشی قتل کے مترادف ہے، چیف سیکرٹری اور فورس کمانڈر فوری نوٹس لیں، تاکہ محرومیوں کا ازالہ ہوسکے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کی تمام بنجر زمینوں پر مقامی لوگوں کا بنیادی حق تصور کرتے ہوئے مالکانہ حقوق دیئے جائیں اور تمام غیر قانونی تعمیرات کو بلڈوز کیا جائے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ جی بی میں صحت کی سہولیات ناکافی ہیں، ڈی ایچ کیو ہسپتال میں جدید مشینری کی فراہمی، اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تعیناتی خصوصاً نیور و سرجن کی تعیناتی عمل میں لائی جائے اور تمام اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو ہسپتال کے قریب رہائشی مکانات فراہم کئے جائیں، جو کہ جنرل سرجنز اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے لئے تعمیر کئے گئے تھے، ان مکانات پر صوبائی حکومت کے اعلیٰ افسروں نے قبضہ جمایا ہوا ہے، ان کو فوری طور پر خالی کر وایا جائے۔ قرارداد میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں اور سرجنز کی رہائش کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 796126
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش