0
Saturday 1 Jun 2019 01:44
عراق کی طرف سے عرب لیگ کے مشترکہ اختتامیے کی مخالفت

ایران ایک مسلمان اور ہمسایہ ملک ہے جسکی سلامتی عرب و اسلامی ممالک کے مفاد میں ہے، برہم صالح

ایران ایک مسلمان اور ہمسایہ ملک ہے جسکی سلامتی عرب و اسلامی ممالک کے مفاد میں ہے، برہم صالح
اسلام ٹائمز۔ مکۂ مکرمہ میں ہونے والے عرب ممالک کے دو ہنگامی اجلاسوں کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے ایران پر بےبنیاد الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے تمام ممالک سے مل کر ایران کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔سعودی اخبار "عکاظ" کے مطابق سعودی وزیر خارجہ ابراہیم العساف، عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیظ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف بن راشد الزیانی نے عرب اور خلیج فارس کے دوسرے ممالک کے دو ہنگامی اجلاسوں کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ ابراہیم العساف نے مکہ میں ہونے والے دو ہنگامی اجلاسوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن عرب ممالک ایران کے ساتھ امن و امان اور تعاون کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس شرط پر کہ ایران ہمارے ممالک کے اندر موجود دہشتگردوں کی حمایت بند کرکے عرب ممالک کے لئے ایک اچھا ہمسایہ بن جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایران سے ہماری پریشانیوں کی وجہ اس کی "یمن کے حوثیوں" اور "لبنان کی حزب اللہ" کی حمایت نہیں بلکہ ایران کی بحرین وغیرہ جیسے بعض ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اپنے بیلسٹک میزائل و جوہری پروگرام میں پیشرفت ہے، جو خلیج فارس کے ممالک کے لئے خطرے کا باعث ہے۔ اسی طرح عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیظ نے کہا کہ عرب ممالک اور عرب لیگ کے رکن ممالک ایران سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کر دے اور خطے میں موجود اپنی سیاست پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ عرب لیگ میں سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین پر مشتمل "ایران کمیٹی" کے نام سے ایک چار رکنی کمیٹی موجود ہے، کہا کہ عرب لیگ کی ایران کمیٹی کی ذمہ داری ایران کے ساتھ مقابلہ کرنے کی پالیسی وضع کرنا ہے۔ عرب اپنا دفاع کرتے اور ایران کی سیاست میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان بن عبدالعزیز کی درخواست پر مکہ میں عرب ممالک کے سربراہان مملکت کے دو ہنگامی اجلاس منعقد ہوئے، جن کے اختتامی بیان میں عرب سربراہان مملکت نے مبینہ "ایرانی مداخلت" سے مقابلے کے لئے عرب ممالک کے ایک نئے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے اختتامی بیان میں ایران پر بحرین کے "دہشتگرد گروہوں" کی حمایت کا الزام بھی لگایا اور دعوی کیا کہ جو راکٹ انصاراللہ کی طرف سے سعودی عرب پر داغے جاتے ہیں، ایران میں بنے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی بیان میں ایران پر شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں عرب لیک کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیظ نے "براہ راست" نشریات میں واضح الفاظ میں کہا کہ عرق نے مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے "عرب سربراہان مملکت کے ہنگامی اجلاس کے اختتامی بیان" کی کھل کر مخالفت کی ہے۔

دوسری طرف عراق کے صدر برہم صالح نے مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے عرب سربراہان مملکت کے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک مسلمان ملک اور عرب ممالک و عراق کا ہمسایہ ہے جبکہ بلاشک ہم یہاں ایران کے امن و سلامتی کے خلاف کسی اقدام کے لئے جمع نہیں ہوئے۔ ایران کے ساتھ ہماری 1400 کلومیٹر پر مشتمل مشترکہ سرحد اور بیشمار تاریخی مشترکات موجود ہیں۔ یقینا اس اسلامی ملک کا امن و استحکام عرب اسلامی ممالک کے قومی مفاد کے ساتھ سازگار ہے۔ ہمارا خطہ استحکام اور باہمی سلامتی کے مشترکہ طریقہ کار کا محتاج ہے، جو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ تشدد و انتہاء پسندی کا مخالف بھی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 797335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش