0
Sunday 19 Jun 2011 14:59

پاراچنار روڈ کی بندش، طلبہ پانچ سال بعد بھی موسمِ گرما کی تعطیلات پر گھر جانے سے قاصر

پاراچنار روڈ کی بندش، طلبہ پانچ سال بعد بھی موسمِ گرما کی تعطیلات پر گھر جانے سے قاصر
پشاور:اسلام ٹائمز۔ کرم ایجنسی پاراچنار صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوب مغرب میں 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 2007ء میں ملک دشمن طالبان نے جب پاراچنار میں اپنی کاروائیاں شروع کیں تو وہاں آباد طوری و بنگش قبائل نے مزاحمت شروع کی اور آج تک اپنے ملک کے دفاع میں 1600ء جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ اسکے علاوہ 5000 سے زیادہ افراد زخمی اور سینکڑوں افراد عمر بھر کیلئے معذور ہو چکے ہیں۔2007ء سے 5 لاکھ کی آبادی دہشتگردوں کی طرف سے پاراچنار ٹل روڈ کی بندش کی وجہ شدید مشکلات میں ہے، گزشتہ پانچ سال سے جنگ زدہ پاراچنار کا پورا علاقہ اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی لحاظ سے بحران کا شکار ہے۔ اشیائے خورد و نوش اور ادویات ناپید ہیں اور ضروریات زندگی کی قیمتیں دس گنا ہو چکی ہیں۔ پورا علاقہ انسانی المیہ کا شکار ہے اور حقیقی معنوں میں فلسطینی غزہ سے بدتر حالات سے دو چار ہیں، کسی بھی قوم کے زوال کے لئے یہی کافی ہوتا ہے، ان مشکلات میں طلباء بھی بہت قربانیاں دے چکے ہیں، درجنوں طلباء پشاور اور پاراچنار کے درمیان سفر کرتے ہوئے اغواء کر لیے گئے، بہت سوں کو قتل کر دیا گیا، یہ کہنا بجا ہو گا کہ لوئر کرم ایجنسی پاراچنار کے لوگوں کے لئے موت کی وادی بن چکی ہے۔
ملک کے تمام تعلیمی اداروں نے موسم گرما کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ تمام طلباء گھر جا رہے ہیں اور وہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پر خوش ہیں، لیکن مظلوم اور اپنے گھروں سے دور پاراچنار سے تعلق رکھنے والے طلباء پچھلے چار سالوں کی طرح امسال بھی اپنے گھر نہیں جا سکتے اور نہ ہی پاراچنار کی سبز اور سرد وادی میں چھٹیاں گزار سکتے۔ پاراچنار کے ہزاروں طلباء ملک کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں باالخصوص پشاور میں سخت تکلیف میں ہیں۔ جنگ زدہ علاقے سے تعلق رکھنے والے طلباء دس ہزار سے بیس ہزار تک ہوائی جہاز کا ٹکٹ برداشت نہیں کر سکتے۔
پشاور یونیورسٹی کے طالب علم اعزاز حیدر کہتے ہیں کہ میرے تمام دوست اپنے گھروں کو چلے گئے مجھے بھی اپنے گھر اور والدین کی بہت یاد آتی ہے، لیکن راستوں کی بندش کی وجہ سے گھر نہیں جاسکتا۔ زرعی یونیورسٹی کے طالب علم حسن جان نے کہا کہ ھم حکمرانوں سے پوچھنا چاہتے ہیںطکہ کیا پاراچنار پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔؟ اگر ہے تو چار سالہ محاصرہ کیوں، کیا ٹل پاراچنار شاہراہ کو محفوظ بنانا واقعی حکومت کے بس میں نہیں اور کیا ایک مہذب قوم پانچ لاکھ آبادی کے پانچ سالہ محاصرے کا جواز پیش کر سکتی ہے؟ اگر حکومت چاہے تو پاراچنار امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراھم کرے۔
طالب علم قلندر بنگش کہتے ہے کہ دو مہینوں سے مسلسل پاراچنا ر کے طلباء اپنے مطالبات منوانے اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہے لیکن حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج تک کوئی اعلٰی عہدیدار ان کی داد رسی کے لئے نہیں آیا۔ پشاور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم پاراچنار سے تعلق رکھنے والی طالبات نے کہا کہ شدید گرمی اور گھروں سے دوری کے باعث پڑھائی پر صحیح توجہ
نہیں دے سکتی۔ ان طلباء و طالبات نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا جائے، تاکہ وہ باحفاظت اپنے گھروں کو جا سکیں۔
خبر کا کوڈ : 79795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش