0
Wednesday 12 Jun 2019 17:24

مزید قرضہ اس لئے لے رہے ہیں کہ قرض واپس کر سکیں، مشیر خزانہ

مزید قرضہ اس لئے لے رہے ہیں کہ قرض واپس کر سکیں، مشیر خزانہ
اسلام ٹائمز۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ہمیں ایسی معیشت ورثے میں ملی جس میں 31 ہزار ارب کا قرض  تھا، حکومتی آمدنی کا  آدھا حصہ قرضوں کے سود کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ فوج، سویلین اور ترقیاتی اخراجات قرض لے کر پورا کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت نے جس ماحول میں بجٹ پیش کیا۔ اس بارے میں عوام کو بتائیں گے۔ ہماری کو شش ہے کہ عوام کی امنگوں پر پورا اتریں۔ انہوں نے کہا کہ 31 ہزار ارب کا قرض ہماری حکومت نے نہیں لیا لیکن ذمہ داری ہے، ادا کرنا ہے۔ ہم مزید قرضہ اس لئے لے رہے ہیں کہ قرض واپس کر سکیں۔ مشیر خزانہ نے کہا ہم  نے ڈالرز میں قرضہ لیا ہے واپس بھی ڈالرز میں کرنا ہے۔ ہماری ایکسپورٹ زیرو ہے۔ تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالرز کا ہے۔ نہوں نے کہا کہ مسائل اور قرضے ویسے کھڑے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اخراجات اور آمدنی کو بہتر کریں۔ امیروں کو ملک کے ساتھ سچا ہو کر ٹیکس دینا ہو گا۔ ہمارے خطے کے امرا لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن پاکستان کے امرا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ حفیظ شیخ نے کہا کہ ٹیکس لینے کے لیے ہم نے کفایت شعاری کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے سرکاری اخراجات کم کئے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت ہم  468 سے 431 ارب تک اخراجات لے آئے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا پاکستان کی تاریخ میں پاک فوج کا بجٹ 1150 ارب تھا اس کو اسی سطح پر فریز کیا گیا۔دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہائی لیول لیڈر شپ اکٹھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل سیفٹی بجٹ کو 121 ارب سے بڑھا کر 151 ارب تک کر دیا ہے۔بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی صورت میں 300 یونٹ سے کم استعمال کرنے والوں کے لئے 216 ارب سبسڈی رکھی ہے۔ ترقیاتی بجٹ  کی مد میں گزشتہ سال 550 ارب روپے استعمال ہوئے اس سال 950 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ فاٹا کے اضلاع کے لئے 150 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم پرائیویٹ سیکٹر کی مدد کرینگے ان کو قرضے اور سبسڈی کی سہولت دینگے۔ 5500 ارب روپے کی کلیکشن اچھے طریقے سے کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مینو فیکچرر پاکستان سے باہر چیز فروخت کررہا ہے اس سے ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔لیکن جو چیز ہاکستان میں فروخت ہوگی اس پر ٹیکس دینا ہوگا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈومیسٹک سیکٹر میں اندازے کے مطابق ٹیکسٹائل مصنوعات کی فروخت 12 سو ارب روپے کی ہے اور ٹیکس 6 سے 8 ارب روپے ملتا ہے۔ٹیکسٹائل سیکٹر کو اپنی زمہ داری پوری کرنا ہوگی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارا ریفنڈ کا سلسلہ اچھا نہیں اس کو بہتر کرینگے۔کوشش کرینگے کہ ریفنڈ کے لیے ہم  چین اور بنگلا دیش کے ماڈل کے طور پر استعمال کریں۔ مشیر خزانہ نے کہا سیلز ٹیکس کو مینوفیکچرنگ کے وقت  لیا جائے تو ہیرا پھیری کم ہوگی۔نان فائلر اور فائلر کی پوزیشن کو ختم کررہے ہیں۔کوئی نان فائلر کچھ بھی خریدے گا وہ فائلر بنے گا۔اگر45 دن میں فائلر نہیں بنا تو اس پر اس سے پوچھا جائے گا کہ رقم کہاں سے لائے؟ انہوں نے کہا کہ فائلنگ کا نظام آٹومیٹک بنایا ہے، کمپیوٹر پر 6 منٹ میں فائلر بنا جا سکتا ہے۔1655 را مٹیریل کی امپورٹ لائینوں پر کسٹم ڈیوٹی زیرو کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ کولمبیا کی کافی ، فرانس کا کھانا کھانا چاہتے ہیں وہ بے شک کھائیں لیکن 4 فیصد ٹیکس ادا کریں۔
خبر کا کوڈ : 799160
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش