0
Friday 14 Jun 2019 06:13

خلیج اومان میں دو بحری جہازوں پر حملہ، ایران کو قصوروار نہ سمجھا جائے، روس کی تاکید

خلیج اومان میں دو بحری جہازوں پر حملہ، ایران کو قصوروار نہ سمجھا جائے، روس کی تاکید
اسلام ٹائمز۔ جمعرات کے روز سہ پہر کے وقت جب جاپانی وزیراعظم کی رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات جاری تھی، عالمی میڈیا میں ایرانی سمندری حدود خلیج فارس کے قریب ہی واقع خلیج اومان میں دو بحری جہازوں میں دھماکوں کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تفصیلات کے مطابق ان میں سے ایک "فرنٹ آلٹیئر" نامی بحری جہاز "مارشل آئی لینڈز" کا تھا، جو قطر سے ناروے کیلئے "ایتھانول" بھر کے لے جا رہا تھا جبکہ "کوکوکا کریجیس" نامی دوسرا بحری جہاز پاناما کا تھا، جو سعودی عرب کے شہر الجبیل سے "میتھانول" لے کر سنگاپور جا رہا تھا۔ جاپان کی وزارت تجارت نے اعلان کیا کہ خلیج اومان میں حادثے کا شکار ہونے والے دونوں بحری جہازوں پر لادا گیا سامان "جاپان" کا تھا۔ ان میں سے ایک بحری جہاز کا مال سنگاپور کی کمپنی کا تھا، جس نے اُسے کرائے پر لے رکھا تھا۔ اس حادثے کے بعد عالمی منڈی میں مختلف قسم کے کروڈ آئلز کی قیمتوں میں 1.5 تا 2 فیصد اضافہ بھی ہوا جبکہ ریاض، دبئی، ابوظہبی اور مسقط کی اسٹاک ایکسچینجز میں مندی چھا گئی۔

عالمی سطح پر بھی اس حادثے کا وسیع پیمانے پر ردعمل دیکھنے کو ملا۔ جرمنی اور فرانس نے سب سے پہلے ان حادثات پر اپنا ردعمل ظاہر کیا جبکہ جرمنی نے ان حوادث کو "پریشان کن" قرار دیا۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اپنے البانیا کے ہم منصب کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جو خبر ہمیں ملی ہے، شدید پریشان کن ہے۔ ہائیکو ماس نے مزید کہا کہ تناؤ کا شدت اختیار کر لینا خطرناک ہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو تناؤ میں تیزی کے ساتھ اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت تناؤ کم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور تمام ممالک کو مل کر اس کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیئے۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی "رویٹرز" نے بھی ایک فرانسوی حکومتی اہلکار سے بیان نقل کیا، جس میں تمام ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ صبر و حوصلہ سے کام لیں۔

دوسری طرف روس نے اس حادثے کو ایران پر مزید دباؤ بڑھانے کے لئے ممکنہ طور پر استعمال کئے جانے اور تناؤ کو مزید بڑھائے جانے کے بارے عمومی انتباہ جاری کیا۔ روسی نائب وزیر خارجہ "سرگئی ریابکوف" نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ہر قسم کے جلد بازی پر مبنی فیصلے اور کسی ایسے ملک کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش جو اچھا نہیں لگتا، کے بارے سب کو خبردار کر دیں۔ یوں اس حادثے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد روسی وزارت خارجہ نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کر دیا۔ روسی وزارت خارجہ نے "سرگئی ریابکوف" کے زبانی خلیج فارس کے تمام ممالک کو تناؤ کم کرنے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سرگئی ریابکوف نے اس حادثے کو خطے میں موجود تناؤ کی علامت قرار دیتے ہوئے کسی بھی اقدام سے قبل ایران کے متعلق موجود مسائل کے حل کا مطالبہ بھی کیا۔

ادھر سعودی عرب کے نیوز چینل "سعودی العربیہ" نے بھی روسی میڈیا کی زبانی نقل کیا کہ ماسکو چاہتا ہے کہ خلیج اومان میں ہونے والے اس حادثے کو ایران کے ساتھ مرتبط نہ کیا جائے۔ اس چینل نے کہا کہ روسی وزارت خارجہ کہتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ خلیج اومان میں ہونے والے اس حادثے کی ذمہ داری ایران پر نہ ڈالی جائے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اپنے ترجمان "سید عباس موسوی" کی زبانی اس حادثے کے وقوع پذیر ہونے پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا جبکہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹر میں اس حادثے کو "مشکوک" قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی خلیج اومان میں دو بحری جہازوں پر ہونے والے دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام ممالک سے اس مسئلے کے واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔

یورپی یونین نے خطے کے عرب ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ خطہ مزید کسی بھی تناؤ کو بڑھانے اور استحکام کو کم کرنے والے محرک کا متحمل نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ "فیڈریکا موگرینی" اور یورپی یونین خطے کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے تناؤ سے پرہیز کی خاطر  زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل سے کام لیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان "سارا سینڈرز" نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم خلیج اومان میں بحری جہازوں کو درپیش حوادث سے آگاہ ہیں۔ امریکی حکومت امدادی کاموں میں مشغول تھی اور صورتحال کی چھان بین جاری رکھے گی۔ اسی طرح برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم آبنائے ہرمز میں بحری بیڑوں پر حملے اور بحری بیڑوں میں آگ لگ جانے کے واقعے سے سخت پریشان ہیں جبکہ ہم خطے کے حکام اور خطے میں موجود اپنے پارٹنرز سے رابطے میں ہیں۔

کویت نے بھی خلیج اومان میں دو بحری بیڑوں کے حادثے کا شکار ہو جانے کے بعد اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بحری بیڑوں کے متعلق تمام مسائل کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح عرب لیگ اور کویت نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خلیج اومان میں پیش آئے اس حادثے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔ بہرحال اس تمامتر صورتحال سے ہٹ کر عمومی اذہان میں اٹھنے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ جاپان کے وزیراعظم کی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ساتھ جاری اس تاریخی ملاقات کے دوران ہی ان بحری بیڑوں پر حملہ کیوں کیا گیا، جس کا تمام عالمی میڈیا پر اس قدر گرم استقبال بھی ہوا۔
خبر کا کوڈ : 799387
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش