0
Wednesday 19 Jun 2019 12:21
بی این پی سربراہ کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات، اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کرلی

ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے پیدا ہونیوالی سوچ کے دور رس اثرات ہونگے، مولانا فضل الرحمٰن

ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے پیدا ہونیوالی سوچ کے دور رس اثرات ہونگے، مولانا فضل الرحمٰن
اسلام ٹائمز۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہتے ہیں جمہوریت کی مضبوطی، شفاف الیکشن اور آزاد عدلیہ ہو، حکومت کے اتحادی نہیں چند نکات پر ووٹ دیا، سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بحالی کیلئے واضح ایجنڈا لیکر آنا ہوگا، انسانی حقوق کی پامالی ہو تو جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھا جا سکتا۔ منگل کو بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، سینیٹر جہانزیب جمالدینی بھی ملاقات میں موجود تھے، جبکہ جے یو آئی (ف) کی جانب سے ملاقات میں مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا اسعد محمود اور دیگر شریک ہوئے، ملاقات میں حکومت مخالف تحریک اور اے پی سی کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اختر مینگل کو اہوزیشن اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اے پی سی پر مشاورت کا آغاز ہو چکا ہے، امید ہے آئندہ ہفتے میں اے پی سی کا انعقاد ہو سکے گا۔

انہوں نے کہاکہ اختر مینگل کا مثبت جواب دینے پر شکرگزار ہوں، ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے پیدا ہونے والے سوچ کے دور رس اثرات ہونگے، پوری قوم کو ایک صف میں آنا ہوگا تب ہی اہداف حاصل ہو سکیں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ اپوزیشن قیادت کے جیلوں میں ہونے کی وجہ سے ہی اے پی سی جلدی ہو رہی ہے۔ اختر مینگل نے کہاکہ بی این پی اور جے یو آئی (ف) کے دیرینہ رشتے ہیں، میرے والد بلوچستان اور مولانا کے والد کے پی کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آج بھی دونوں جماعتیں اتحادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے اے پی سی کیلئے دعوت دی تھی، ملکی سیاست میں ہمارا بھی کردار اور ذمہ داریاں ہیں، ہم چاہتے ہیں جمہوریت کی مضبوطی، شفاف الیکشن اور آزاد عدلیہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے اتحادی نہیں لیکن حکومت کو چند نکات پر ووٹ دیا، حکومت کیساتھ بات چیت جاری ہے، بطور سیاسی جماعت اے پی سی میں شرکت کرینگے۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہاکہ جلد ہی پارٹی کی میٹنگ بلا کر مولانا کو مثبت جواب دینگے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں کئی منتخب اور غیر منتخب حکومتیں آئیں اور گئیں، کتنے بجٹ آئے لیکن ملک کی تقدیر نہیں بدلی۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بحالی کیلئے واضح ایجنڈا لیکر آنا ہوگا، ممکن ہے نیشنل ایجنڈے پر حکومتی جماعتیں بھی متفق ہوں، حکومت بننے سے پہلے چھ نکات پی ٹی آئی کے سامنے رکھے تھے، ابھی تک چھ نکات پر عمل نہیں ہوا، صرف تسلیاں دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھ نکات سیاسی اور بلوچستان کے ترقیاتی تھے۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی ایشو میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔ بلوچستان والوں کو خدشہ ہے ترقی کے نام پر ڈیمو گرافکس تبدیل نہ ہوں، بارہا کوشش کی حکومت کو بلوچستان کے مسائل سے آگاہ کروں، لیکن اگر کوئی مسائل کو نہیں سمجھتا تو کیا کر سکتا ہوں۔

اختر مینگل نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچستان نہیں سندھ کا بھی ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی فہرست حکومت کو دی، جمہوریت کی بنیاد انسانی حقوق ہے۔ انہوں نے کہاکہ انسانی حقوق کی پامالی ہو تو جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ فاٹا کے حوالے سے اسمبلی میں ترمیمی بل پاس ہو چکا ہے، فاٹا کی نشستوں کا معاملہ اسمبلی کا ہے اے پی سی کا نہیں۔ انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے معاملے پر اسلام آباد میں بہت دھرنے دیکھے۔ انہوں نے کہاکہ جلسوں اور اسمبلی میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھا چکے۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ اٹھائے گئے اور عدالتوں میں پیش نہیں کئے گئے ان کے خاندانوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔
 
خبر کا کوڈ : 800319
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش