سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں، اقوام متحدہ
19 Jun 2019 18:29
تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر عائد کی گئی پابندیوں میں توسیع کرتے ہوئے ولی عہد اور ان کے ذاتی اثاثوں کو بھی شامل کیا جائے، جب تک وہ یہ ثابت نہیں کردیتے کہ وہ اس قتل کےذمہ دار نہیں۔
اسلام ٹائمز۔ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق اقوام متحدہ کی تشکیل کردہ ٹیم کی جانب سے جاری کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سینئر سعودی عہدیدار صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ارسال کی گئی 100 صفحات پر مبنی رپورٹ پر ریاض کی جانب سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ماورائے عدالت قتل سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر اور تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر عائد کی گئی پابندیوں میں توسیع کرتے ہوئے ولی عہد اور ان کے ذاتی اثاثوں کو بھی شامل کیا جائے، جب تک وہ یہ ثابت نہیں کردیتے کہ وہ اس قتل کےذمہ دار نہیں۔
اگنیس کیلامارڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جمال خاشقجی دانستہ، منصوبہ بندی کے تحت ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے ہیں عالمی انسانی حقوق کے قانون کے تحت جس کا ذمہ دار سعودی عرب ہے۔ رواں برس کے آغاز میں اگنیس کیلامارڈ نے فرانزک اور قانونی ماہرین پر مشتمل ٹیم کے ہمراہ ترکی کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے ترک حکام سے شواہد حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جو اعلیٰ سطحی سعودی حکام سمیت ولی عہد کی قتل کی شمولیت سے متعلق مزید تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگنیس کیلامارڈ نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی ٹیم کی انکوائری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولی عہد کے ذمہ دار ہونے سے ٹھوس اور قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جو مزید تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے عالمی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ماہر اگنیس کیلامارڈ کی جانب سے یہ رپورٹ 26 جون کو پیش کی جائے گی۔ خیال رہے کہ انسانی حقوق کونسل کے 47 رکن ممالک میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔ تاہم 2 اکتوبر 2018ء کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔
خبر کا کوڈ: 800385