0
Tuesday 21 Jun 2011 11:20

سانحہ خروٹ آباد حقائق متلاشی مشن کی رپورٹ، ایف سی اور پولیس قتل کے ذمہ دار

سانحہ خروٹ آباد حقائق متلاشی مشن کی رپورٹ، ایف سی اور پولیس قتل کے ذمہ دار
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے حقائق متلاشی مشن کی جانب سے خروٹ آباد واقعے کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 3 غیر مسلح چیچن خواتین سمیت 5 افراد کے قتل کی ذمہ داری کوئٹہ پولیس اور ایف سی پر عائد ہوتی ہے۔ باخبر ذریعے کے مطابق مشن کو حکام کے دعوؤں میں کوئی وزن محسوس نہیں ہوا کیونکہ اس کی رپورٹ کا نتیجہ پولیس اور ایف سی کے خلاف ہے اور بے رحمی سے مارے جانے والوں کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔ قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل حقائق متلاشی مشن کو اس وحشیانہ واقعے کی جو وجوہات بتائی گئیں ان سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ قانون نافذ کرنے والوں کا قصور ہے جنہوں نے 5 چیچن باشندوں کو صرف اس خوف کی بناء پر مار دیا کہ یہ خودکش حملہ آور یا دہشت گرد ہو سکتے ہیں اور ایف سی پر حملہ کر سکتے ہیں۔ 
ذریعے نے بتایا کہ مشن کی رپورٹ کے مطابق ہلاک شدگان کی لاشوں کے ساتھ ملنے والے سامان سے کوئی دھماکا خیز مواد نہیں ملا، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پولیس کے اس دعوے کی بھی نفی ہو گئی کہ یہ پانچوں افراد بم دھماکے میں ہلاک ہوئے، پہلی چیک پوسٹ پر جب ان کی تلاشی لی گئی تو ان کے پاس 2 شیمپو کی بوتلیں تھیں لیکن بعد میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ہینڈ گرینیڈز تھے، ٹیکسی ڈرائیور نے چیچن باشندوں کے ہاتھوں میں کسی بھی قسم کے دھماکا خیز مواد ہونے کے دعوے کو مسترد کر دیا، بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ سے کوئی خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹ ملی نہ ہی کسی قسم کا دھماکا خیز مواد، اور اس سے ڈرائیور اور ڈاکٹر کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے کہ چیچن باشندوں کے پاس دھماکا خیز مواد نہیں تھا۔
مشن کے ارکان کے مطابق آئی جی پی بلوچستان متضاد اور غیر موثر رہے۔ آئی جی پی امین ہاشم نے مشن کو بتایا کہ مشتبہ افراد انتہائی تربیت یافتہ اور محرک تھے اور ان کے پاس دھماکا خیز مواد بھی تھا۔ بہرحال حقیقت میں نہ تو انہوں نے کوئی گولی چلائی اور نہ ہی پولیس یا ایف سی اہلکاروں پر کوئی گرینیڈ وغیر پھینکا۔ ایف سی کے آئی جی میجر جنرل عبیداللہ خٹک نے مشن کو بتایا کہ ایف سی اہلکاروں نے مشتبہ افراد کو پولیس کے پاس سے بھاگتے دیکھا اور پولیس اہلکار ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ مشن کو بتایا گیا کہ ایف سی اہلکاروں نے پولیس حکام کی جانب سے "دہشت گرد" کی آوازیں سن کر مشتبہ افراد کو تنبیہ کی کہ وہ ایف سی کی چیک پوسٹ کراس کرنے سے گریز کریں لیکن وہ لوگ چیک پوسٹ کی جانب بڑھتے رہے اور پھر جیسے ہی انہوں نے خاردار باڑھ عبور کی ایف سی اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ 
واقعے کے فوراً ہی بعد سی سی پی او داؤد جونیجو اور ایف سی کے لیفٹیننٹ کرنل (ونگ کمانڈر)فیصل شہزاد جائے وقوع پر پہنچ گئے۔ پولیس اور ایف سی دونوں نے اس خدشے کے پیش نظر انتظار کیا کہ کہیں مشتبہ افراد میں کوئی زندہ نہ ہو اور ان کے پاس دھماکا خیز مواد نہ ہو۔ انہوں نے بم ڈسپوزل اسکواڈ کا بھی انتظار کیا۔ چند ہی لمحوں بعد مشتبہ افراد میں سے ایک کا ہاتھ ہلا اور پھر پولیس اور ایف سی کی جانب سے فائرنگ کا آغاز ہو گیا اور وہ پانچوں ختم ہو گئے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ فائرنگ کے 45 منٹ بعد وہاں پہنچا۔ ان کو بھی دھماکے کا خطرہ تھا، لہذا انہوں نے مشتبہ افراد کی ٹانگیں رسیوں سے باندھیں اور ان کو کھینچ کر دور لے گئے۔ اطلاعات ہیں کہ کوئٹہ کے قریب میں خروٹ آباد پہنچنے والے چیچن افراد کے حوالے سے کوئٹہ ایئرپورٹ کے قریب پچھلی چیک پوسٹ سے پولیس نے ایک پیغام بھیجا کہ 5 چیچن غیر ملکی خروٹ آباد چیک پوسٹ کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ فرنٹیئر کور اور پولیس کے جوان یہ سمجھے کہ چیچن خودکش بمبار ان پر حملہ کرنے والے ہیں۔ 
ٹیکسی ڈرائیور عطا محمد نے کہا کہ اس کو ایک مشتبہ پشتون نے کہا تھا کہ میر ے دوستوں کو کچلاک سے کوئٹی گلاس منڈی پہنچا دو۔ اسے مقامی شخص کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان غیر ملکیوں کو پولیس کی جانب سے خوفزدہ کرنے سے بھی بچایا جائے اس بناء پر ٹیکسی ڈرائیور کو تجویز دی گئی کہ متبادل راستہ اختیار کیا جائے، تاکہ چیک پوسٹس سے بچا جا سکے۔ ڈرائیور نے مشن کو بتایا کہ جب وہ کوئٹہ کی پہلی چیک پوسٹ (ناکہ سبیل) پر پہنچے تو پولیس نے ٹیکسی روکی اور غیر ملکیوں کی تلاشی لی تو ان کو صرف 2 شیمپو کی بوتلیں اور 4 موبائل کے چارجرز ملے۔ ڈرائیور کے مطابق ایک پولیس افسر کو ایک بوتل میں سے کچھ ملا لیکن اسے پتہ نہیں چلا وہ کیا ہے۔ اسی دوران ایس ایچ او ایئرپورٹ پولیس اسٹیشن کو واقعے کے بارے میں اطلاع دی گئی جس نے مشتبہ افراد کو تھانے لے جانے کا حکم دے دیا۔ 
ڈرائیور نے بتایا کہ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے پولیس افسر رضا خان اور پشتون کے درمیان تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ اسے پولیس افسر نے کار روکنے کا کہا اور اس نے روک دی، مشتبہ افراد بھاگے اور پولیس افسر ان کے پیچھے بھاگا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ میں نے ان مشتبہ افراد کے پاس شیمپوؤں کی بوتلوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا تھا۔ عطاء محمد نے مشن کو بتایا کہ اس کو ایس ایچ او کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی اور دباؤ ڈالا گیا تھا کہ میں ان کے حق میں بیان دوں اور کہوں کہ میں مقتولین کے ہاتھ میں ہینڈگرینیڈ دیکھا تھا۔ مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے سرجن ڈاکٹر سید باقر شاہ نے اپنے بیان میں تصدیق کی کہ تمام افراد پولیس اور ایف سی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ ڈاکٹر باقر نے مشن کو بتایا کہ ہلاک شدگان کے جسموں سے مجموعی طور پر 21  گولیاں نکالی گئیں۔ مرنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی کوئی گولی نہیں چلائی تھی اور ایف سی کا ایک اہلکار اپنے کسی ساتھی یا پولیس اہلکار کی"فرینڈلی بلٹ" کا نشانہ بن گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 80178
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش