0
Thursday 27 Jun 2019 20:26

جیئرڈ کشنر بہت سادہ لوح آدمی ہے، فلسطینی رہنما

"صدی کی ڈیل" ایران کے مقابلے میں ایک مضبوط دیوار ہے لیکن اس پر عملدرآمد ملتوی کر دیا ہے، جیئرڈ کشنر
جیئرڈ کشنر بہت سادہ لوح آدمی ہے، فلسطینی رہنما
اسلام ٹائمز۔ صیہونی امریکی منصوبے "صدی کی ڈیل" کے پہلے قدم کے طور پر بحرین میں منعقد ہونے والی "امن برائے پیشرفت" کانفرنس کے خلاف عالمی سطح پر خصوصاً پورے فلسطین میں امت مسلمہ کے وسیع احتجاج اور منامہ کانفرنس کے بائیکاٹ کی وجہ سے ناکامی کی حالت میں اختتام پذیر ہو جانے پر اس منصوبے کے ڈیزائنر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر، جیئرڈ کشنر نے یہ کہہ کر اپنی جان خلاصی کروا لی ہے کہ مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) میں عام انتخابات اور خطے میں ایران و امریکہ کے درمیان تناؤ کی وجہ سے "صدی کی ڈیل" کے منصوبے پر عملدرآمد ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک معروف امریکی نیوز چینل "فاکس نیوز" نے "صدی کی ڈیل" نامی منصوبے کے متعلق دونوں فریقین کی نظر جاننے کے لئے امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیئرڈ کشنر اور فلسطینی نائب وزیراعظم نبیل ابو ردینہ سے انٹرویوز لئے، جن میں ایک دوسرے کی نظر پر اظہار خیال کا موقع بھی دیا گیا۔

اس انٹرویو میں جیئرڈ کشنر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے عوام (صدی کی ڈیل پر) پوری توجہ رکھتے ہیں جبکہ ہم ان میں سے بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور یہ دیکھتے تھے کہ وہ لوگ اس (صدی کی ڈیل کے) منصوبے پر نہ صرف راضی بلکہ بہت خوش ہیں۔ جیئرڈ کشنر نے پروگرام کے میزبان کے اس سوال کا جواب دینے سے اجتناب کیا کہ آپ غزہ کے عوام میں سے کن افراد کے ساتھ رابطے میں تھے؟ اور کہا کہ میں نے اس منصوبے پر ان کے راضی ہونے کا نتیجہ فلسطینی سیاسی قائدین اور عام شہریوں کے ساتھ گفتگو سے اخذ کیا ہے۔ اس کے بعد پروگرام کے میزبان نے فلسطینی مزاحمتی تحریک اور حماس کے رہنما کے ساتھ رابطہ کیا، جنہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ فلسطینی سیاسی شخصیات میں سے کس نے جاری ہفتے میں امریکی حکومتی اہلکاروں کے ساتھ "صدی کی ڈیل" کے بارے گفتگو کرکے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

جیئرڈ کشنر نے اپنے انٹرویو کے دوران اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس منصوبے کو تشکیل دیتے وقت انہوں نے ان مقاصد پر خصوصی توجہ دی ہے، جو ایک خاص زمانے میں حاصل کئے جائیں گے، کہا کہ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اس منصوبے کے عملدرآمد پر اصرار کرکے ہم ان چیزوں کو حاصل کرسکتے ہیں، جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جیئرڈ کشنر نے فاکس نیوز کے میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ کے خیال میں تل ابیب کی حکومت غزہ کی موجودہ خراب صورتحال کی ذمہ دار ہے یا نہیں؟ کہا کہ ہم رابطے کی برقراری میں ناکام رہے ہیں۔ اگر حماس غزہ کے عوام کو فلاح و بہبود پہنچانے کا فیصلہ کر لے تو میرے خیال میں وہ امریکہ اور اسرائیل میں اپنا منتظر ایک فریق ضرور پائے گی، لہذا فی الحال آپ اسرائیل کو اپنے ملک اور عوام کا دفاع کرنے پر سرزنش نہیں کرسکتے!

جیئرڈ کشنر نے میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا "صدی کی ڈیل" پر کامیاب عملدرآمد امریکہ اور ایران کے درمیان موجود مسائل کو حل کرسکتا ہے؟ کہا کہ (صدی کی ڈیل پر کامیاب عملدرآمد) کا بڑا نتیجہ خطے کے اندر ایران کے گرد ایک مضبوط دیوار کی شکل میں ظاہر ہوگا، جو میرے خیال میں ایران کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ دوسری طرف فلسطینی نائب وزیراعظم "نبیل ابوردینہ" نے کہا ہے کہ امریکی حکومت نے انہیں کسی منصوبے سے آگاہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے امریکی صدر ٹرمپ فلسطینی صدر محمود عباس کو کہا کرتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ایک "توافق" کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم مدتوں اس توافق کے منتظر رہے لیکن پھر معلوم ہوا کہ ٹرمپ کی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس توافق کو مختصر کرکے ایک "منصوبے" کی شکل دے دیں۔ پھر ہم نے اس منصوبے کی تفصیلات کو میڈیا میں سنا جبکہ اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا۔

فلسطینی نائب صدر ابوردینہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ "قدس" کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تب ہم نے ٹرمپ کو کہا تھا کہ اگر "قدس" ہمارے انتخاب میں نہ ہو تو امریکی حکومت کے ساتھ ہمارے کسی قسم کے مذاکرات بھی منعقد نہ ہوں گے، کیونکہ امن و امان صرف دو حکومتوں کی موجودگی اور سرحدوں کو 1967ء کی صورتحال پر پلٹانے پر ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے صرف یہی مان لینے سے کہ قدس کے دارالحکومت پر مبنی ایک خود مختار فلسطینی حکومت تشکیل پا جائے گی، محمود عباس دوسرے ہی دن وائٹ ہاؤس میں مذاکرات کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔ اسی طرح فاکس نیوز نے ایک اور فلسطینی رہنما سے بھی رابطہ کیا، جنہوں نے جیئرڈ کشنر کے بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ جیئرڈ کشنر کتنے سادہ لوح شخص ہیں۔

واضح رہے کہ فلسطینیوں اور غاصب صیہونیوں کے درمیان جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کی طرف سے متعارف کروائے گئے "صدی کی ڈیل" نامی منصوبے میں 60 لاکھ کے قریب فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنے وطن پر واپسی کے حق کو مکمل طور پر ختم کر دینے کے ساتھ ساتھ انہیں "متبادل وطن" میں سکونت دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے، جبکہ امریکی حکومت کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی شہر قدس کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ قدس منتقل کرنے کا اقدام بھی اسی منصوبے پر عملدرآمد کا ایک حصہ ہے، کیونکہ "قدس" نامی دارالحکومت پر مشتمل کسی فلسطینی حکومت کا قیام پروگرام میں شامل نہیں۔
خبر کا کوڈ : 801902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش