QR CodeQR Code

ندا، مروہ اور مائیکل جیکسن

13 Jul 2009 13:08

کوئی شخص بھی ندا آقا سلطان کے جاں بحق ہونے کا منظر دیکھ کر خوش نہیں ہوا ہو گا، ایک جوان ایرانی خاتون جو جاہ طلبی، سیاسی ۰۰۰۰


تحریر: وحید ارجمند
ترجمہ: عباس ہمدانی
کوئی شخص بھی ندا آقا سلطان کے جاں بحق ہونے کا منظر دیکھ کر خوش نہیں ہوا ہو گا، ایک جوان ایرانی خاتون جو جاہ طلبی، سیاسی بدتمیزی، بے منطقی یا بطور خلاصہ ڈکٹیٹرشپ کی نظر ہو گئی۔ تہران کے ہنگامے اس جوان خاتون کے مشکوک قتل کا باعث بن گئے جبکہ ندا سلطان کے اہل خانہ کے بقول وہ ایسی مستبدانہ سوچ کی حامی نہیں تھیں۔ ندا سلطان کے قتل کا مشکوک منظر تقریباً ایک ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف ذرائع ابلاغ کی طرف سے منفی پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک ندا سلطان کے قاتل کی شناخت نہیں ہو سکی اور تمام شواہد پشت پردہ ایک گہری سازش کو ظاہر کرتے ہیں۔ مروہ الشربینی، مصری نژاد جرمن فارمیسٹ، جرمنی کی ایک عدالت میں جو ایک جرمن جوان کی طرف سے حجاب کی بے حرمتی کرنے پر تشکیل پائی تھی اس جوان کی طرف سے حملے کا نشانہ بنتی ہیں اور چاقو کے 18 گھاو برداشت کرنے کے بعد شہید ہو جاتی ہیں۔ انکے شوہر بھی انکی نجات کی کوشش میں پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں اور زخمی ہو جاتے ہیں جنکی صورتحال نازک بتائی جا رہی ہے۔ ابھی تک مروہ شربینی پر حملے اور انکے شوہر کے زخمی ہونے کی کوئی تصویر شائع نہیں ہوئی سوائے ایک فوٹو کے جو جرمن جوان کے اس مسلمان خاتون پر وحشیانہ حملے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ دردناک اور مجرمانہ حادثہ ندا آقا سلطان کی موت کی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والوں کی طرف سے بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ گویا اس واقعے کی اتنی اہمیت ہی نہیں ہے کہ اسکے بارے میں کوئی خبر دی جائے۔ مائیکل جیکسن، امریکا کا ایک منحرف گلوکار، جسکے اخلاقی سکینڈلز اور جنس کی تبدیلی کا بے حد شوق اسکے گانوں سے کہیں زیادہ اسکی شہرت کا باعث تھے، ان دو واقعات کے درمیان دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ مائیکل جیکسن کی موت ایران مخالف مغربی میڈیا کی پہلی خبر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ میں مائیکل جیکسن کی موت کی خبر ندا سلطان کی موت کی خبر کے ہم تراز اور ڈاکٹر مروہ شربینی کی شہادت کی خبر سے کہیں زیادہ اہم ظاہر کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ان تینوں واقعات کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ سے نشر ہونے والے پروگرامز سے سمجھی جا سکتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟۔ اگر ہم مغربی ذرائع ابلاغ مخصوصاً بی بی سی فارسی اور وی او اے کے اس رویے سے پیدا ہونے والے سوالات کا جواب جاننے کی کوشش نہ کریں تو یہ ایک بے انصافی ہو گی۔
۱۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے پالیسی میکرز، خاص طور پر بی بی سی فارسی اور وائس آف امریکہ ٹی وی چینل میں بیٹھے انکے فرزند، کو ندا آقا سلطان کے بزدلانہ قتل اور ریپ موسیقی کے نمائندے اور امریکی بداخلاق سنگر مائیکل جیکسن کی موت کے درمیان میں کیا مشترکات نظر آئے تھے کہ انہوں نے ان دونوں واقعات کو ایک درجہ کی اہمیت دی؟۔ البتہ خدا ناخواستہ یہ نہ سمجھا جائے کہ اس مظلوم ایرانی خاتون کا قتل اور امریکی گلوکار کی موت ایک جیسی اہمیت کی حامل ہیں۔
۲۔ ان ذرائع ابلاغ کو چلانے والوں نے کس بنیاد اور منطق کے تحت ندا آقا سلطان کے قتل اور مائیکل جیکسن کی موت کے مخاطبین کو ایک جیسا سمجھا ہے؟ یا ان دونوں مخاطبین کی سوچوں کو ایکدوسرے کی قریب لانے کی کوشش کی ہے؟۔ آیا ندا سلطان کے مشکوک قتل کی جستجو کرنے والے افراد اتنا ہی اس حادثے سے غمناک ہوئے ہیں جتنا مائکل جیکسن کی موت سے؟۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ان ذرائع ابلاغ کا ان دونوں مخاطبین کو ایک جیسا ظاہر کرنے کا مقصد کیا ہے؟۔
۳۔ کیوں ایسا ہولناک جرم، جو ایک مغرب نژاد نسل پرست جوان کے ہاتھوں اسلامی تعلیمات پر یقین رکھنے اور حجاب کرنے کی خاطر ایک مسلمان خاتون کے قتل کا باعث بنا ہے، مغربی میڈیا کی طرف سے بائیکاٹ کیا جاتا ہے؟۔ ان ذرائع ابلاغ کے پالیسی میکرز کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ندا سلطان کے قتل کے مخاطبین مروہ شربینی کی شہادت کی خبر سننے کے خواہش مند نہیں ہیں؟۔ ندا سلطان کے قتل اور مروہ شربینی کی شہادت میں کیا فرق ہے جو ان ذرائع ابلاغ کو مجبور کرتا ہے کہ ان دو واقعات کی نسبت مختلف ردعمل ظاہر کریں؟۔
۴۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا یہ امتیازی سلوک کن کے سیاسی اہداف کے ہم جہت ہے؟۔ یقیناً اس رویے سے فائدہ اٹھانے والے افراد خاص جغرافیائی حدود میں محدود نہیں ہیں۔ وہ افراد جو ندا سلطان کے مشکوک قتل کی نسبت بی بی سی فارسی اور وائس آف امریکہ کے جانبدارانہ رویے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یا وہ افراد جو ایک مسلمان خاتون کے دردناک قتل کی خبر پھیلنے سے خطرے کا احساس کرتے ہیں کیا مشترکہ مفادات رکھتے ہیں؟۔ دوسری طرف مائیکل جیکسن کی موت کی خبر کو اتنے وسیع پیمانے پر کوریج دینے کے اہداف اور ان افراد کی رائے میں کیا تعلق ہے؟۔ شاید ان تمام افراد کی سوچ جنہوں نے مغربی ذرائع ابلاغ کے اس غیر منصفانہ اور امتیازی رویے سے فائدہ اٹھایا ہے غیر منصفانہ نہ ہو لیکن جو تلخ حقیقت موجود ہے وہ یہ ہے کہ ان تین واقعات کے ردعمل میں مغربی میڈیا کے رویے نے ان تمام افراد کو ایک مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔
۵۔ آخری سوال یہ ہے کہ تہران کے تازہ ترین ہنگاموں میں ملوث افراد کا عمل کیوں ان ذرائع ابلاغ کے نزدیک پسندیدہ قرار پاتا ہے جو مائیکل جیکسن کی موت کی تشہیر کے حوالے سے مختلف پروگرامز ترتیب دیتے ہیں؟۔
ان سوالات کا جواب یا دوسرے الفاظ میں ان تین واقعات کے مشترکات اور اختلافات کو ڈھونڈنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔


خبر کا کوڈ: 8023

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/8023/ندا-مروہ-اور-مائیکل-جیکسن

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org