اسلام ٹائمز۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ ریکوڈک کا فیصلہ انھوں نے تنہا نہیں، سپریم کورٹ کے دو ججز کے ساتھ بیٹھ کر کیا۔ نجی ٹی وی کیساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں آئین و قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے کی تحقیقات 1993ء سے ہونی چاہیے، ریکوڈک میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر ہیں۔ جسٹس (ر) افتخار چوہدری نے کہا کہ ریکوڈک میں جو کرپشن کی گئی، وہ بہت بڑی ہے، ریکوڈک میں دریافت ہوچکی ہے، رپورٹ موجود ہے، یہ کامیابی ہے۔ سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کے فیصلوں کو چیلنج کرنے سے انارکی پیدا ہوگی۔
انکا کہنا تھا کہ آئین کے تحت سابق جج کسی کمیشن کےسامنے پیش نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسٹیل مل کے خریداروں کا بھارتیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا، اکیس ارب روپے میں فروخت نقصان کا سودا ہوتا۔ کلبھوشن یادیو کیس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کو عالمی عدالت سے قونصلر رسائی نہیں ملنی چاہیے تھی۔ کلبھوشن کیس میں نظرثانی کا معاملہ پاکستان کی عدالت کرے گی، پاکستان کی عدالت کے فیصلے کو دنیا کو ماننا پڑے گا، ملٹری کورٹس کی سزا پر عدالت عظمیٰ سے بھی توثیق کی نظیریں ہیں۔ خیال رہے کہ ثالثی عدالت کی جانب سے ریکوڈک کیس میں بین الاقوامی کمپنی کو بھاری ہرجانہ دینے کا حکم دینے کے بعد حکومتی وزراء اور تجزیہ کاروں کی جانب سے اس فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔