0
Saturday 27 Jul 2019 15:00

طلاق ثلاثہ بل طبقاتی قانون سازی، آئینی جوازیت نہیں ہے، جسٹس مسعود

طلاق ثلاثہ بل طبقاتی قانون سازی، آئینی جوازیت نہیں ہے، جسٹس مسعود
اسلام ٹائمز۔ بھارت میں برسر اقتدار جماعت کی طرف سے (تحفظ حقوقِ شادی) بل 2019ء کو مسلم خواتین کے لئے راحت قرار دینے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں تجویز کردہ مذکورہ بل مسلم خواتین کی حالت ابتر بنا دے گا۔ بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پارٹی رکنِ پارلیمان حسنین مسعودی نے برہمی کا اظہار کیا کہ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دین اسلام میں جنسی انصاف کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل طبقاتی قانون سازی کا حصہ ہے، اس میں بغیر کسی قابل ذکر فرق کے صرف ایک طبقے کو قانون سازی کیلئے اُٹھایا گیا ہے، اس لئے یہ آئین کے تحت جائز نہیں ہے۔ بھارتی وزیرِ قانون کے اُس دعوے کہ پارلیمنٹ یہ قانون نافذ کرنے کا اہل ہے، کو مسترد کرتے ہوئے حسنین مسعودی نے کہا کہ ایک بار سپریم کورٹ کی طرف سے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد قانون نافذ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی قانون بن گیا تھا اور ایسے معاملات میں اسی قانون کے تحت کارروائی ہوتی۔

جسٹس حسنین مسعودی نے ان دعوؤں کو بھی مسترد کیا جن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بل کو سپریم کورٹ کے فیصلے مطابق لایا گیا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار نہیں دیا گیا ہے، جیسا پیش کردہ بل میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کو قابلِ سزا جرم بنانے اور 3 سال کی سزا سے ایک کنبہ خود بخود الگ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے بل کے ذریعے ایک کنبے یا ازدواجی زندگی کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے جو ایک بیوی کو شوہر کے خلاف مقدمہ چلانے، گرفتار کرنے، حراست میں رکھنے اور تین سال قید میں رکھنے کا حق فراہم کرتا ہو اور ساتھ اس سارے عمل کے دوران شوہر کو اپنی بیوی کی تمام ذمہ داریاں نبھانے کا بھی پابند بناتا ہو۔ جسٹس حسنین مسعودی نے ایوان میں کہا کہ نیشنل کانفرنس طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ قرار دینے کی سختی سے مخالفت کرتی ہ
ے۔
خبر کا کوڈ : 807405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش