0
Sunday 18 Aug 2019 10:11

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام کیخلاف جی بی کی پارلیمانی جماعتوں کیجانب سے یو این مشن میں یادداشت جمع

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام کیخلاف جی بی کی پارلیمانی جماعتوں کیجانب سے یو این مشن میں یادداشت جمع
اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف جی بی کی پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے دفتر میں مشترکہ یادداشت پیش کی گئی۔ اسلامی تحریک پاکستان کی میزبانی میں گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کا مشترکہ پارلیمانی اجلاس 10 اگست 2019ء کو منعقد کیا گیا تھا، اس اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حاصل مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے انڈیا کی جانب سے یکطرفہ خاتمہ کے خلاف مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور اجلاس میں طے پایا تھا کہ گلگت میں قائم یو این مشن کے دفتر تک جی بی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل وفد جائے گا تا کہ گلگت بلتستان کے عوام کا غم و غصہ اقوام متحدہ کے ایوان اور متعلقہ دفتر تک پہنچایا جاسکے۔ اس حوالے سے اسلامی تحریک پاکستان کے صوبائی سکرٹیریٹ میں تمام شریک جماعتوں کا اجلاس ہوا اور مشترکہ یادداشت کی منظوری دی گئی، بعد ازاں علامہ شیخ میرزا علی کی قیادت میں مشترکہ پارلیمانی جماعتی وفد نے یونائیٹڈ نیشن ملٹری آبزرور آفس میں مشترکہ یادداشت پیش کی۔

وفد میں جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عطاء اللہ شہاب، پیپلز پارٹی کے مرکزی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر محمد موسی، صوبائی سکریٹری اطلاعات سعدیہ دانش، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سکریٹری فنانس پروفیسر اجمل اور مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی ترجمان الیاس صدیقی شامل تھے، جنہوں نے گلگت بلتستان میں پارلیمانی جماعتوں کو اہم ترین قومی مسئلہ پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرنے پر آئی ٹی پی کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کو اس طرح پارلیمانی انداز جاری رکھا گیا تو خطہ کی آئینی حیثیت کے تعین کیلئے بھی قومی بیانیہ کی تشکیل کیلئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اجلاس کے اختتام پر سابق صوبائی وزیر دیدار علی نے پارلیمانی جماعتی اجلاس اور آج کے مشترکہ یادداشت کے پروگرام کو کامیاب بنانے پر تمام جماعتوں کے صوبائی عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا۔ مشترکہ یاد داشت کے نکات حسب ذیل ہیں۔

  ہندوستان میں جاری نسلی، قومی اور مذہبی تعصبات اور نا انصافیوں سے دلبرداشتہ مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تقسیم ہندوستان کی صورت میں پاکستان معرض وجود میں آیا، ابھی پاکستان کی تشکیل اور عالمی برادری میں مستقل ملک کو تسلیم کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے دونوں ملکوں کے سرحدوں کے تعین، ان باہمی تنازعات کے حوالے سے تصفیہ کا عمل جاری تھا کہ مہاراجہ کشمیر کی جانب سے الحاق بھارت کا یکطرفہ اعلان سامنے آیا جس کے بعد مہاراجہ کشمیر کے زیر اثر ریاست کشمیر اور ملحقہ مقبوضہ علاقوں میں مہاراجہ کشمیر کے اعلان کے خلاف شورش پھوٹ پڑی جس کے نتیجہ میں موجودہ گلگت بلتستان کے نام سے جانے جانے والا علاقہ سمیت بھارت کی جانب سے غاصبانہ قبضہ کئے گئے بعض علاقوں کو مقامی لوگوں نے گلگت اسکاؤٹس کی مدد سے آزاد کرانے کا آغاز یکم نومبر 1947ء سے کر دیا جو اگست 1948ء تک جاری رہا۔

اگرچہ یکم نومبر1947ء کو ریاست کشمیر کے صوبہ لداخ کے ہیڈکوارٹر گلگت کی آزادی کے بعد مقامی طور پر مستقل حکومت اسلامی جمہوریہ گلگت کے نام  سے قائم ہو چکی تھی جس نے اپنا جھنڈا اور حکومتی سیٹ اپ بھی تشکیل دے دیا تھا اور اسی مقامی حکومت نے 16 نومبر1947ء کو نو تشکیل شدہ ملک پاکستان سے بلا مشروط الحاق کا باضابطہ اعلان کر کے حکومت پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے نمائندے کو ریاست حوالے کر دی تھی، جس کے بعد اقوام متحدہ کی سربراہی میں متعدد اوقات میں پاکستان اور انڈیا کے مابین معاہدے ہوئے، جن معاہدوں کی بنیاد تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا رہا ہے۔

(1)۔ 5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے مطابق ریاست کشمیر اور اس کے ملحقہ علاقوں جن پر مہاراجہ کشمیر کا غاصبانہ قبضہ تھا اور تقسیم انڈیا کے دوران کسی وجہ سے تقسیم نہیں ہو سکے  تھے کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے پر موقوف قرار دیا اور اس قرارداد کے مطابق مہاراجہ کشمیر کے زیر اثر تمام علاقوں میں جو 27 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر کے الحاق بھارت کے اعلان کے بعد شورش زدہ تھے اور کچھ حصہ بھارت کے قبضہ میں چلا گیا اور کچھ حصہ بھارت کے تسلط سے آزاد رہا، جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے، کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعہ کیا جانا ہے۔

(2)۔ تقسیم ہندوستان کے وقت جواہر لال نہرو بحیثیت وزیر اعظم انڈیا نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مہاراجہ کشمیرکے زیر تسلط علاقوں کی خصوصی حیثیت کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا اور اقوام متحدہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے ان قراردادوں کی پاسداری کی۔
(3 )۔ پاکستان اور ہندوستان کے مابین طے پانے والے 1972ء کے شملہ معاہدہ میں بھی اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد کو بنیاد بنایا گیا اور استصواب رائے کے ذریعہ ریاست کشمیر کے بنیادی اور ملحقہ مقبوضہ علاقوں کا مستقبل کا فیصلہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

(4)۔ موجودہ متعصب مودی حکومت نے اقوام متحدہ کے وقار کو چیلنج کرتے ہوئے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد کے منافی اقدام اٹھا کر دہشت گردانہ ذہنیت کو تقویت دی ہے اور عالمی سطح پر بدامنی کا پیغام دینے کے ساتھ اقوام متحدہ کی اہمیت اور افادیت کو داغدار کرنے کی مذموم کوشش کی ہے، اس حوالے سے سلامتی کونسل کے اجلاس کو خوش آئند قرار دینے کے ساتھ امید رکھتے ہیں اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ اپنی قراردادوں کا مودی حکومت کو پابند بنانے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے گا۔
خبر کا کوڈ : 811208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش