0
Monday 26 Aug 2019 18:58

گلگت میں تحفظ و فروغ عزاداری کانفرنس

گلگت میں تحفظ و فروغ عزاداری کانفرنس
رپورٹ: ایل اے انجم

امامیہ آرگنائزیشن پاکستان گلگت ریجن کے زیر اہتمام مرکزی جامع مسجد امامیہ میں تحفظ و فروغ عزاداری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں گلگت، ہنزہ نگر اور استور کے علماء، ذیلی انجمنوں کے صدور اور آئی او کے مسئولین نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ محسن انسانیت حضرت ابا عبداللہ الحسین ؑ پوری انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہیں، آپ ؑ کی قربانی کسی خاص مکتب کیلئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہے، آپ کی عظیم قربانی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم قیام امام حسین ؑ کے بنیادی اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے بامقصد عزداری کے احیاء کیلئے عملی اقدامات کریں۔ تحفظ عزاداری کانفرنس میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے امامیہ آرگنائزیشن کے ریجنل ناظم محمد حسین نے کہا کہ عزاداری جیسے عظیم سرمایے کے ہونے کے باؤجود آج ہم سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر مشکلات کا شکار ہیں، اس کی بنیادی وجہ خرافات کا شامل ہونا ہے، معاشرہ انحطاط کا شکار ہے۔

نوجوان نسل مغربی تہذیب کی اسیر ہوچکی ہے، ہمیں عزاداروں کو ذکر حسین سے فکر حسین کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ ان تمام مشکلات کے باجوؤد آج دنیا میں شیعیت سربلند ہے، شیعیت حرکت میں ہے اور مظلوم کی آواز بن گئی ہے، پچھلے دنوں عید کے موقع پر دو خطبات ہوئے، فرق صاف ظاہر تھا، ایک خطہ حج کے موقع پر اور دوسرا عید کا خطبہ تہران میں دیا گیا، جہاں دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے آواز بلند کی گئی، جہاں مظلوموں کی حمایت اور ظالموں سے نفرت کا اظہار کیا گیا، اس کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں۔ آج شیعیت اگر قائم و دائم ہے تو دو چیزوں کی وجہ سے ہے، ایک عزاداری اور دوسرا نظریہ ولایت فقیہ، دشمن ان دونوں چیزوں کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے، ایم آئی سکس کے ذریعے میڈ ان یو کے شیعہ وجود میں لانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، دشمن کی چالوں سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے، ہمیں عزاداروں کو ذکر حسین سے فکر حسینؑ کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔

 آغا راحت حسین الحسینی
کانفرنس سے قائد ملت جعفریہ گگت بلتستان سید راحت حسین الحسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام سید الشہداؑ سے تجدید عہد و وفا کا مہینہ ہے، علماء کرام مجالس میں امن و آشتی، اتحاد و محبت کا پیغام دیں اور تمام مکاتب فکر کے افراد کیلئے مواقع فراہم کریں، تاکہ تمام مسلمان اس عظیم عبادت میں شریک ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عزاداروں کو فکر حسین کی طرف راغب کریں، روایتی چیزوں سے ہٹ کر شرعی مسائل پر گفتگو کریں، نماز اور  واجبات پر بھی بات کرنی چاہیئے، قومی و ملی مسائل پر بھی گفتگو کریں، علماء کو چاہیئے کہ وہ تیاری کرکے آئیں، دیگر مسالک کے لوگوں کو بھی دعوت دیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں فوج، ایجنسیوں اور انتظامیہ کو مجالس اور عزاداری سے کوئی مسئلہ نہیں، نہ ہی وہ رکاوٹ ہیں، یہاں کچھ افراد ایسے ہیں، جو ان اداروں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور بلیک میل کرکے رکاوٹیں پیدا کرواتے ہیں۔

کچھ شرپسند عناصر ایجنسیوں اور انتظامیہ کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ فلاں جگہ پر سبیلوں کو نہیں ہٹایا گیا تو ہم خود ہٹا دیں گے، پھر لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کے ڈر سے انتظامیہ کو ایکشن لینا پڑتا ہے، یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ وہ عناصر کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں، ایسے عناصر کی بیخ کنی ضروری ہے، تاکہ معاشرے میں امن قائم رہے اور فساد نہ ہو۔ عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے، جس پر کوئی بھی سمجھوتہ ناممکن ہے۔ انہوں نے بانیان مجالس اور علماء کرام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ مجالس میں ان چیزوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کریں، مجالس کے دوران اسلامی اقدار کا خیال رکھیں، مجلس کے پہلے دن ہی ضابطہ اخلاق جاری کریں اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ آغا راحت حسین نے بانیان مجالس اور دیگر علماء کو اپنی ذمہ داریوں اور ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اہم ہدایات بھی دیں۔

سید ذیشان حیدر الحسینی
معروف عالم دین اور محقق سید ذیشان حیدر الحسینی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو تین آفاقی انقلاب ہمیں نظر آئیں گے۔ ایک انقلاب محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، جو عرب میں اس تاریک دور میں برپا ہوا، جب انسان انسان کے خون کا پیاسا ہوچکا تھا، معاشرہ ساری روحانی بیماریوں کا شکار تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ سالوں جنگیں لڑی جاتی تھیں، اس دور میں انقلاب محمدی برپا ہوا، جو ایک آفاقی انقلاب ہے، دوسرا آفاقی انقلاب کربلا ہے، پیغمبر کی وفات کے بعد جب پریشانیاں اور چیلنجز درپیش ہوئے تو امام حسینؑ نے کربلا کا رخ کیا، یہاں سے عزم حسینی شروع ہوتا ہے، اگر ہم کربلائے حسینی کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں بصیرت بھی نظر آتی ہے، اعتقاد نظر آتا ہے اور پلاننگ بھی نظر آتی ہے، پلاننگ بہت اہم چیز ہے، آج ہمارے پاس پلاننگ نہیں ہے۔ امام حسین یزید سے ایسے ہی نہیں ٹکرائے، یزید تو امام کو مکہ اور مدینہ میں ہی قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن یہ حسینؑ کی پلاننگ تھی کہ یزیدیت کو اسیر کرکے کربلا میں لاکر دفن کر دیا، یہ بصیرت ہے اور یہ پلاننگ ہوتی ہے۔

تیسرا آفاقی انقلاب انقلاب اسلامی ایران ہے، اگر ہم عزم حسینی کو دیکھنا چاہیں تو ہمیں کربلا میں ملے گا یا خمینی کی غیر متزلزل قیادت میں۔ امام خمینی نے جب بے روح دین کا رابطہ کربلا کے ساتھ جوڑا تو انقلاب برپا ہوا اور ولایت فقیہ نے اس نظام کے ذریعے ہمیں امامت کے ساتھ جوڑ دیا۔ آج کی ہماری بڑی ذمہ داری ہی یہی ہے کہ ہم انقلاب اسلامی کا مطالعہ کریں اور ولایت فقیہ کے اس نظام کو سمجھیں، تاہم عزم حسینی تک پہنچ سکیں۔ آج ہمارے بعض علماء کو مقصر سمجھا جاتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ ہمارے حوزہ ہائے علمیہ کے اندر موجود پوٹینشل اور قوت کو ہم سامنے نہیں لاتے، اس کے اندر بہت قوت ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کرائسس مینجمنٹ crisis  managment (مدیریت بحران) پر بیس سال تک ایک تھیوری پر کام کیا ہے، اگر ہم اس تھیوری پر کام کریں تو دس سال میں معاشرہ ایک نئے نہج پر گامزن ہوسکتا ہے، کیونکہ دنیا اس وقت بحران میں مبتلا ہے، اخلاقی اقدار پائمال ہو رہے ہیں، ایک بڑا اخلاقی بحران ہے، جس پر ایمرجنسی نافذ ہونی چاہیے۔

اقتصادی بحران بھی ہے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے، سیاسی بحران بھی ہے، سیاسی قوت ہم نے گنوا دی ہے، جن کے ہاتھوں سیاست ہونی چاہیئے تھی، وہ نہیں ہے، ثقافتی بحران ہے، اسلامی ثقافت ہم سے چھین لی گئی ہے، اسلامی دنیا مغربی ثقافت میں ڈھل چکی ہے، بہت ساری چیزیں لوگوں کی مجبوری بن چکی ہے، مثال ہے طور پر ٹائی پہنا اور داڑھی منڈوانا، اس کو روکنے کی کوئی جرات بھی نہیں کرسکتا، ہماری ثقافت ہم سے چھن چکی ہے، معاشرتی بحران بھی ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل ہم نے اس تھیوری میں پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے دیکھنا ہے کہ ان مسائل کی وجوہات کیا ہیں، اسباب و علل کیا ہیں، ہم نے اس تھیوری میں کالج، یونیورسٹی، معاشرہ کو واضح کیا ہے کہ ان مسائل میں کس کا کتنا حصہ ہے اور کیا کیا جا سکتا ہے، ایک طالب علم کتنا فیصد مقصر ہے، علماء کتنے فیصد مقصر ہیں، اس کا حل کیا ہے، کیسے آگے چل سکتے ہیں اور ہر بحران کے حل کیلئے ایک ٹائم پیریڈ مقرر کیا گیا ہے۔

اس عرصے کے اندر یہ مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں حل ہوسکتا ہے اور دس سال کے بعد معاشرہ نئے نہج پر گامزن ہو سکتا ہے، کیونکہ علوم آل محمد کے اندر تھیوری موجود ہے، جس کے ذریعے آپ پورے نظام کو چلا سکتے ہیں، جیسا کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا ''ہم اہل بیت کی محبت تمام امتوں کیلئے نظام ہے'' اگر آپ تھوڑا سا تفکر کا نمک ڈال دیں تو آپ ملت کیلئے نظام دے سکتے ہیں، قوموں کو چلا سکتے ہیں، ملکوں کو چلا سکتے ہیں، جیسا کہ انقلاب اسلامی ایران ہے جو تیسرا آفاقی انقلاب ہے۔ امام خمینی نے ثابت کیا کہ جو دین کتابوں اور مسجدوں کے اندر اسیر ہوچکا تھا، اس دین کو میدان کارزار میں لایا یہاں تک کہ دنیا کے سب سے بڑے فرعون اور استعمار کو شکست دی، تاریخ اس بات کی گواہ ہے، حالانکہ پاکستان کا وجود بھی ایک انقلاب تھا، جو لا الہ اللہ کے نظریے پر وجود میں آیا۔

پاکستان کا انقلاب ایران کے انقلاب سے بہت پہلے آیا، آج پاکستان کہاں کھڑا ہے اور ایران کہاں کھڑا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عزاداری امام حسین کو رسم سے نکال کے عزم اور رزم میں تبدیل کریں۔ ہم بحران کو ایجاد کرنے والے عوامل کا مطالعہ کریں، خصوصاً سوشل میڈیا کے بارے میں ہم جتنا بھی آنکھیں بند کریں، ہمارے نوجوان سوشل میڈیا سے غیر متاثر نہیں ہوسکتے۔ دشمن مختلف قسم کے حملے کر رہا ہے، قرآن، اہل بیت اور ولایت فقیہ کے بارے میں شبہات پیدا کر رہے ہیں، اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مطالعہ کے میدان کو وسیع کریں، کیونکہ سسٹم جب تک ہم خود نہیں سمجھیں گے، ہم لوگوں کو نہیں سمجھا سکتے۔ عزم حسینی بیدار کرنے کیلئے ہماری ذمہ داری ہے کہ نئے تقاضوں کے مطابق تیاری کریں، عزاداری میں روایتی باتوں کو شامل نہ کریں۔

سید ارشاد حسین مصطفوی
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین سید ارشاد حسین مصطفوی نے کہا کہ عزاداری عظیم ترین سرمایہ ہے، اسی عزاداری کی بدولت ہی انقلاب اسلامی ایران برپا ہوا، انقلاب کا محافظ ہی عزاداری ہے، یہ عشق حسین ہی ہے، جو ایرانی تشیع کسی سے نہیں ڈرتے، یہ کربلا کا پیغام ہے کہ جو بھی کربلا کو اپنائے گا، وہ غدیری ہے، وہ منتظر بھی ہے اور کربلائی بھی ہے۔ حسینیت زندہ باد کے نعرے کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے حسین کی راہ اپنائی، جس نے دین کی تقویت کیلئے قدم بڑھایا، وہ زندہ باد ہے۔ یزدیت مردہ باد کا مطلب ہے کہ جو بھی فکر یزید کا پرچار کرے گا، وہ زمانے کا یزید ہے، چاہے وہ زمانے کا بش ہو، داعش ہو، صدام ہو یا قذافی۔ انہوں نے کہا کہ عزاداری کے دوران ہمارے صاحبان ممبر کو چاہیئے کہ وہ روایتی چیزوں سے ہٹ کر عزاداری کے اصل مقاصد کو عوام تک پہنچائیں، تاریخ کے ساتھ عقلی دلائل کی طرف توجہ دیں، کیونکہ ہمارے دوستوں کو اندھی تقلید پر گامزن کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ کافی غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں، ہمیں انہیں عقلی دلیل سے سمجھانے کی ضرورت ہے، انہیں مطالعہ اور مباحثہ کی جانب لے جانے کی ضرورت ہے۔

شیخ مرزا علی
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین شیخ میرزا علی نے کہا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو حسینی کردار پر استوار کریں اور عزاداری کے تحفظ و فروغ کو یقینی بنائیں، کچھ سالوں سے منصوبہ بندی کے تحت عزاداری کے پروگرام میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے، کبھی روٹ کا مسئلہ، کبھی پرمٹ کا مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے، اس میں اندرونی اور بیرونی عناصر شامل ہیں، یہ پرمٹ ہی بے جا مداخلت ہے، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی آئین ہمیں عزاداری سے روک نہیں سکتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ عقیدہ میرا ہے، مسئلہ میرا ہے، سینہ میرا پٹتا ہے، دولت میری خرچ ہوتی ہے تو پھر کسی اور کی کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے لئے مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ رونا ایک فطری عمل ہے، یہ اصل منزل نہیں، جس چیز کی طرف ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ اس عزاداری کے ذریعے ہم نے کونسا مقام اور ہدف حاصل کرنا ہے۔

وزیر مظفر عباس
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امامیہ کونسل گلگت کے صدر وزیر مظفر عباس نے کہا کہ عزاداری سید الشہداء بقائے دین کی ضامن ہے، ماہ محرم اور صفر سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ایک صالح معاشرے کے قیام کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا، بامقصد عزاداری کے احیاء کیلئے مرکزی امامیہ کونسل کی طرف سے جو ضابطہ اخلاق جاری ہوا ہے، اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے آخر میں آئی او گلگت ریجن کے ناظم محمد حسین نے گلگت بھر سے آئے ہوئے علماء، ذیلی انجمنوں کے صدور اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔
خبر کا کوڈ : 812952
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش