1
Tuesday 27 Aug 2019 19:23

یہ سرکشانِ عرب!

یہ سرکشانِ عرب!
تحریر: تنویر حیدر سید

تقدیر کا قاضی کس قدر انصاف پرور ہے کہ اس نے اپنے پسندیدہ دین کی پاسداری اور احیائے کلمہ حق کی ذمہ داری کسی خاص قوم یا قبیلے کے حصے میں نہیں رکھی۔ دین کی ترویج ایک زمانے تک عربوں کے ہاتھوں انجام پاتی رہی، لیکن اب یوں لگتا ہے جیسے دین کی نشاةِ ثانیہ کا پرچم قادرِ مطلق نے عربوں کے ہاتھوں سے لے کر عجمیوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ افقِ عالم پر ابھرنے والے اس نئے منظر نامے کی خبر آج سے چودہ صدیاں قبل سید الانبیاء نے دے دی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب رسولِ خدا نے اس آیت کی تلاوت فرمائی "و ان تتولو یستبدل قوما غیر کم ثم لا یکو نو امثلکم" (سورہ محمد آیت۸۳) ترجمہ: "اگر تم پھر جاﺅ تو (خدا) تمہارے بدلے ایک اور قوم کو لے آئے گا، جو تمہاری طرح نہ ہوں گے" تو اصحاب نے عرض کی یارسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں کہ اگر ہم پیچھے ہٹ گئے تو خدا ہمارے بدلے ان کو لے آئے گا؟ رسولِ خدا نے سلمان فارسی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا یہ اور اس کی قوم۔

اسی طرح صحیح مسلم کی جلد4 ص 47 میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسولِ خدا کے پاس تھے کہ سورة جمعہ نازل ہوئی۔ پس حضرت نے اس کی تلاوت کی۔ یہاں تک کہ آپ اس جگہ پہنچے "وآخرین منھم لما یلھقوابھم" تو رسول خدا سے ایک صحابی نے پوچھا کہ وہ کون ہیں، جو ابھی تک ہم سے ملحق نہیں ہوئے ہیں۔ سلمان فارسی اس وقت ہم میں موجود تھے۔ پس رسولِ خدا نے سلمان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا، اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر بھی ہو تو اس کی قوم کے مرد اسے وہاں سے اتار کر لے آئیں گے۔ ابن الحدید نے شرح نہج البلاغہ ج، ص482  میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ اشعت نامی ایک شخص نے امیرالمومنینؑ کے پاس چند ایرانیوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو قومی تعصب کی آگ میں جل کر حضرت علیؑ سے کہنے لگا، آپ نے ان ایرانیوں کو ہم پر غلبہ دے دیا ہے۔ آپؑ اس وقت جلال میں آگئے اور زور سے پاﺅں زمین پر مار کر کہا کہ آگاہ ہو جاﺅ! قسم ہے اس ذات کی، جس نے دانے کو شگافہ کیا ہے اور جان کو خلق کیا ہے، یہ ایرانی تم کو دین پر واپس لانے کے لیے اسی طرح ماریں گے، جس طرح تم نے شروع میں ان کو دین پر واپس لانے کے لیے مارا تھا۔

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ صدرِ اسلام میں حضرت عمر کے دور میں عربوں نے ایرانیوں کو دین پر لانے کے لیے ان کو اپنی تلوار کی نوک پر رکھا اور آج اسی طرح ایرانی قوم، یہود و نصاریٰ کے حاشیہ بردار عربوں کے خلاف سینہ سپر ہوگئے ہیں۔ آج وہی حرمِ مقدس جہاں کبھی مسلمان عالمِ کفر کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی جنگی حکمتِ عملی وضع کیا کرتے تھے، آج وہی مکہ معظمہ جہاں ایک بار رسول اللہ نے حضرت ابو بکر کو سورة براءت کی آیات دے کر فرمایا تھا کہ انہیں حج کے موقع پر لوگوں کو سنا دو، جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کی ذات مشرکین سے بیزار ہے۔ انقلابِ زمانہ دیکھیے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل اسی مکہ میں عرب حکمران آج کی سب سے بڑی اسلام دشمن طاقت کی سرپرستی میں اسلام اور مسلمین کی سب سے بڑی حامی اور اسرائیل اور امریکہ کی سب سے بڑی مخالف قوت ایران کے خلاف اعلانِ براءت کے لیے جمع ہوئے۔

آج یہ عرب حکمران اسرائیل کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ رہی سہی کسر انہوں نے مودی جیسے قاتل کے راستے میں اپنے دیدہ و دل فراشِ راہ کرکے پوری کر لی ہے۔ آج یہود، ہنود اور آلِ سعود کی شکل میں ایک ایسا اتحادِ ثلاثہ وجود میں آچکا ہے، جو تمام دنیا میں پھیلی اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں فرعون کی سنت پر عمل پیرا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ بار بار ریت پر کھڑے ایوانوں میں تخت نشین عرب حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی بجائے عالمِ مشرق کی طرف رجوع کریں اور عروقِ مردہِ مشرق میں خونِ زندگی دوڑانے کا سبب بنیں۔ ہمیں قدرت نے ایران جیسا عظیم ہمسایہ ملک عطا کیا ہے۔ وہ ایران جس کے بارے میں شاعرِ مشرق نے ایک بار کہا تھا:
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہِ ارض کی تقدیر بدل جائے


پاکستان اور ایران عالمِ مشرق کی وہ عظیم قومیں ہیں، جن کی فکر اور سوچ ایک ہے۔ دونوں اقبال شناس ہیں اور اقبال کے درسِ خودی سے رہنمائی لیتی ہیں۔ ایرانی قائد آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال کو مشرق کا بلند ستارہ کہا ہے۔ تاریخِ پاکستان گواہ ہے کہ ایرانی قوم نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ یہ ہم ہی ہیں، جنہوں نے عرب شیوخ سے اپنے ذاتی مراسم اختیار کرنے کی دوڑ میں ایران کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 1965ء میں جب بھارت نے ہم پر جنگ مسلط کی تو اس وقت کے رسالہ "پیام" میں ایسی تصاویر چھپی تھیں، جن میں دکھایا گیا تھا کہ جنگ کے پاکستانی زخمیوں کو خون دینے کے لیے تہران کی سڑکوں پر قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ رسالہ کافی عرصہ تک میری لائبریری میں موجود رہا۔ آج اگر پھر ایک بار ایرانی قیادت اور عوام کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی معیت میں فرنٹ فٹ پر آگئی ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے اور عمران خان صاحب کو چاہیئے کہ ادھر اُدھر در در کی ٹھوکریں کھانے اور رسوائی کا مزید سامان جمع کرنے کی بجائے آیت اللہ خامنہ ای کے پاس خود جائیں اور ان سے رہنمائی لیں۔

آخر میں دوبارہ عرب کے شیوخ کے حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ عام عرب عوام کا ان کٹھ پتلی حکمرانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان میں مقاومت کے جذبے سے سرشار ایسی تحریکیں منصئہ شہود پر موجود ہیں، جو ظلم و جبر کے مقابلے میں اپنی ایک الگ تاریخ مرتب کر رہی ہیں۔ البتہ تختِ حکمرانی پر براجماں آج کے ان عیاش عرب حکمرانوں کے کانوں تک کاش سید الصادقین کی کوئی یہ حدیث پہنچا دے، جو آپ نے آج ہی کے زمانے کے لیے فرمائی ہے کہ: ”تباہی ہے عرب کے باغیوں اور سرکشوں کے لیے، اس شر کی وجہ سے جو قریب ہے۔
خبر کا کوڈ : 813029
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش