0
Monday 2 Sep 2019 22:40

آصف اشرف جلالی نے کشمیر کیلئے جہاد کو فرض قرار دیدیا

آصف اشرف جلالی نے کشمیر کیلئے جہاد کو فرض قرار دیدیا
اسلام ٹائمز۔ تحریک لبیک یارسو ل اللہ (ص) کے سربراہ و تحریک صراط مستقیم کے بانی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے دیگر قائدین مفتی محمد عابد جلالی، صاحبزادہ محمد امین اللہ سیالوی، پیرزادہ محمد سردار احمد رضا فاروقی، علامہ فرمان علی حیدری، مفتی محمد اسحاق جلالی، صاحبزادہ مرتضیٰ علی ھاشمی، علامہ محمد صدیق مصحفی جلالی کے ہمراہ میڈیا کے سامنے مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کیلئے جہاد کشمیر کی فرضیت کا شرعی فتویٰ صادر کیا۔ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی نے کہا بھارت کشمیریوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں جاری آگ اور خون کا ہولناک سلسلہ بہت بڑے انسانی المیہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک ماہ سے کشمیری مسلمان مسلسل لاک ڈاؤن کے پھندے میں اپنی زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں۔ میڈیا بلیک آوٹ کی وجہ سے موت کے اندھیروں میں گھرے کشمیریوں کی چیخیں سنائی دینا بھی بند ہو گئی ہیں۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 45000 سے زائد بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں کشمیری مسلمان ہماری اخلاقی، سفارتی، قانونی مدد سے کہیں آگے قرآنی مدد کے مستحق ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے فوج نکالنے کے لئے چند گھنٹو ں کی ڈیڈلائن دی جائے اور اس کے بعد مقبو ضہ کشمیر میں موجود بھارتی فوج کے ٹھکانوں پر حملے شروع کئے جائیں۔ اگر آج فوری طور پر کشمیریوں کی فریاد اور حکم جہاد پر کان نہ دھرا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمرانوں کا بار بار یہ کہنا کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر تو ان کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جو کشمیری مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے ان کی اس بے بسی میں ہم انکی مدد کو نہیں پہنچیں گے۔ ہاں اگر بھارت آزاد کشمیر کی طرف بڑھے گا تو پھر ہم ان کو جواب دیں  گے۔ حکمرانوں کی ان طفل تسلیوں سے ہرگز قوم مطمئن نہیں اور نہ ہی ایسے کھوکھلے بیانات کے ذریعے سے ہم قیامت کے دن سرخرو ہو سکتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے یک طرفہ طور پر کشمیر کے اپنے ساتھ یوں الحاق کر لینے پر ٹال مٹول والی پالیسی سے چند لمحوں کی سستی کا کشمیریوں کو صدیوں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور پاکستان کا استحکام بھی شدید خطرے میں پڑھ جائے گا۔ چنانچہ مظلوم کشمیری مسلمانوں کو بھارت کے شکنجے سے چھڑوانے کیلئے اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین کو غاصبانہ بھارتی قبضے سے آزاد کرانے کیلئے جہاد فرض ہو چکا ہے۔ جس کا شرعی فتویٰ بندہ نے صادر کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس فتویٰ میں قرآنی آیات، احادیثِ رسول (ص) اور فقہائے اسلامی کی تشریحات سے یہ ثابت کیا گیا ہے۔ کہ لہو لہو کشمیر کی آزادی کیلئے جہاد کی فرضیت میں کوئی شک باقی نہیں رہا۔ ایک مسلمان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس طرح وہ نماز، روزے کا مکلف ہے۔ ایسے ہی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کا بھی مکلف ہے۔ اور عمومی حالات میں بھی ہر مسلمان پر جو کہ معذور نہ ہو سال میں کم از کم ایک بار جہاد فرض ہے۔ اگر عقلِ انسانی کو جہاد کی اور حکمت سمجھ نہ بھی آتی تو جہاد پھر بھی فرض قرار پاتا۔ صرف اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آخرت میں ان کی کامیابی کیلئے جہاد کا مکلف بنا دیا ہے۔ مگر یہاں پیشِ نظر صرف ایک مکلف کا اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہی نہیں بلکہ اس کے اور مقاصد بھی ہیں۔ اگر لوگوں کو وعظ و تبلیغ سے ہدایت نصیب نہ ہو تو پھر ان کی ہدایت کے پیشِ نظر جہاد کا حکم ہے۔ اصل مقصد انہیں جان سے مارنا نہیں بلکہ زندہ رکھ کر انہیں سیدھے راستے پر چلانا ہے۔ آگے ہٹ دھرمی کرتے ہوئے وہ خود ہی اپنے لیے موت کا انتخاب کر لیں تو علیحدہ بات ہے۔

اشرف جلالی کا کہنا تھا کہ ایسے ہی جہاد کا مقصد غلبہ دینِ اسلام اور مسلمانوں کو کفّار کے شر سے محفوظ رکھنا ہے۔ ان کے مقاصد کیلئے بھی جہاد فرض ہے مگر فرضِ عین نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ جس میں بعض کی طرف سے اس فریضہ کی آدائیگی سے باقی کا فریضہ ادا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر بعض بھی نہ کریں تو سب کو ترکِ فرض کا گناہ ہو گا۔ مگر کچھ صورتیں ایسی ہیں جن میں جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ نمبر1: اگر کسی علاقے میں مقصدِ جہاد جو کہ غلبہ دین ہے اور کفّار و مشرکین کو دبانا ہے، اگر بعض مسلمانوں کے جہاد سے حاصل نہ ہو سکے تو باقی پر بھی فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ نمبر2: جب مسلمانوں کے کسی علاقے پر غیر مسلم قبضہ کر لیں۔ نمبر3: جب مسلمانوں کے کسی شہر یا ملک یا کسی مسلمان ملک کی سرحد پر غیر مسلم حملہ کر دیں۔ جس علاقے پر غیر مسلموں نے قبضہ کر لیا ہو سب سے پہلے اس علاقے کے مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہوتا ہے۔ پھر اس مقبوضہ علاقے کے جو قریب ترین ہیں ان پر فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ اگر ان کے جہاد میں حصہ لینے سے بھی مسئلہ حل نہ ہو یا وہ سستی کر جائیں تو پھر ان کے بعد والے جو علاقے ہیں، ان کے مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہو گا۔ جب تک وہ مقبوضہ علاقہ کفّار کے قبضے سے مسلمان واپس نہیں لیں گے جہاد کی عینِ فرضیت کا حکم آگے آگے منتقل ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ اس ایک مقبوضہ علاقہ کو واپس لینے کے لیے یا ایک علاقے کے مظلوم مسلمانوں کے چھٹکارے کیلئے پورے روئے زمین کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جائے گا۔

فتاویٰ بزّازیہ میں ہے کہ ایک مسلمان لڑکی کو معاذاللہ اگر کوئی کافر اغوا کر لے تو مشرق و مغرب کے مسلمانوں پر اسکی رہائی فرض ہو جاتی ہے۔ کشمیر میں کتنی دخترانِ اسلام اغوا ہو چکی ہیں؟ کتنے نوجوان شہید ہو چکے ہیں؟ کس قدر کشمیری مسلمان مرد اور عورتیں جیلوں میں دھکیل دئیے گئے ہیں؟ کس قدر کشمیری مسلمانوں کے گھر گرا اور بستیاں جلا دی گئی ہیں؟ آرٹیکل  370کے خاتمے سے کس قدر ان کی زمینیں، ان کا دیس ان سے چھیننے کا اعلان کر دیا گیا ہے؟ کئی ہفتوں سے مسلسل کرفیو لگا کر کس قدر عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا گیا ہے؟ یہ سب کچھ ان سے ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ اگر معاذاللہ یہ مسلمان نہ ہوتے تو پہلے نمبر پر تو بھارت ان پر اس قدر مظالم نہ ڈھاتا اور اگر ڈھاتا تو انسانی حقوق کے نام پر مظلوموں کی مدد کے نام پر امریکہ یا اقوامِ متحدہ کی فوجیں ان کی مدد کو آ پہنچتیں۔ ان کشمیریوں کی سعادت یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں، ان پر مسلمان ہونے کی وجہ سے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ چنانچہ کشمیر میں ہونیوالی زیادتیوں میں سے ایک ایک زیادتی ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان اور کشمیر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔ ایسے ہی بھارت کے مسلمانوں پر بھی جہاد فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کیلئے حکومتِ پاکستان پر افواجِ پاکستان کو مقبوضہ وادی میں بھیجنا فرض ہے۔ اور پاکستان اور کشمیر کے مسلمانوں پر اس مقصد کے لیے افواجِ پاکستان کیساتھ جانی، مالی، اخلاقی ہر طرح کا تعاون اور افواجِ پاکستان کی قیادت میں حسبِ ضرورت عملی جہاد میں شریک ہونا فرض ہے۔
خبر کا کوڈ : 814146
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش