0
Thursday 30 Jun 2011 13:51

ساکھ داؤ پر لگی ہے،جلد بازی میں فیصلہ نہیں دیں گے، عدالت بھٹو ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالوں کے جواب دے گی، سپریم کورٹ

ساکھ داؤ پر لگی ہے،جلد بازی میں فیصلہ نہیں دیں گے، عدالت بھٹو ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالوں کے جواب دے گی، سپریم کورٹ
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کی سماعت میں جلد بازی نہیں کرے گی۔ اس کیس میں عدالت کی ساکھ داؤ پر لگی ہے، عدالت بھٹو ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیگی، ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر وہ الزام نہ آئے جو پہلے والے ججوں پر آتا ہے۔ بھٹو ریفرنس کیس پر عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ صدر مملکت نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے ریفرنس بھیج دیا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں لیکن سپریم کورٹ کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ 
چیف جسٹس کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ آپ کو مکمل انصاف کرنا ہے، آپ مکمل انصاف کریں، لاہور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا کردار ادا کیا، جو غیرقانونی تھا۔ ہائیکورٹ کو اپیلٹ کورٹ کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ ہائیکورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔ ہائیکورٹ از خود ٹرائل کورٹ کا کردار ادا نہیں کرسکتی تھی۔ بھٹو کو پھانسی دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے بعد سات سے 21 دن کے اندر کسی مجرم کو پھانسی دی جاتی ہے، لیکن بھٹو کی پھانسی کے معاملے میں عجلت برتی گئی۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عدالت صرف ان سوالات کا جواب دینے کی پابند ہے جو ریفرنس میں اٹھائے گئے ہیں۔ 
جسٹس میاں شاکر اللہ جان نے کہا کہ بھٹو کیس میں جن بے قاعدگیوں کی آپ نشاندہی کر رہے ہیں کیا ان کو ریفرنس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی وکیل اپنے دلائل تفصیل سے دے چکے ہیں۔ جسٹس سائر علی نے کہا کہ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ آپ حکومتی وکیل کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اٹارنی جنرل ہیں آپ کا رتبہ بہت بڑا ہے، آپ کی جگہ کبھی یحییٰ بختیار دلائل دیا کرتے تھے، آپ عدالت کی آئینی امور پر رہنمائی کریں۔ یہ عام آدمی کا کیس نہیں بلکہ اہم شخصیت کا کیس ہے، جس پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ڈاکٹر بابر اعوان کے دلائل نہ دہرائیں بلکہ بطور اٹارنی جنرل اپنا آزادانہ موقف دیں۔ حقائق جانے بغیر قانونی نکتہ کا جواب کیسے دیا جا سکتا ہے۔ حقائق کا جائزہ لینے کیلئے فریق پارٹی کو بھی بلانا پڑتا ہے۔ جس کی ریفرنس میں گنجائش نہیں ہے۔ 
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اپیل میں جن امور پر فیصلہ آ جاتا ہے، انہیں ریفرنس میں نہیں اٹھایا جا سکتا۔ عدالت کے مشاورتی اختیار سماعت سے متعلق دیگر ممالک کی آئینی شقوں کا تقابلی جائزہ پیش کریں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے آرٹیکل 186 کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 186 کا تقابلی جائزہ بھی بہت ضروری ہے۔ کیا صدر کو ایپلٹ کورٹ کے فیصلے کے بعد ریفرنس بھجوانے کا حق حاصل ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 187 میں مکمل انصاف کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ آپ نے مکمل انصاف کرنا ہے۔ آپ مکمل انصاف کریں۔
 جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے اقلیتی موقف میں جرم میں ملوث افراد کی شہادت پر انحصار نہیں کیا جا سکتا جبکہ اکثریت نے وعدہ معاف گواہ کی شہادت کو درست قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے آپ کی توجہ ایک اہم معاملے کی جانب دلائی ہے۔ جسٹس غلام ربانی نے کہا کہ جانبداری کے نکتہ میں آپ کا مکمل انحصار حقائق پر ہے۔ آرٹیکل 186 کا دائرہ کار صرف قانون پر مبنی سوال تک محدود ہے حقائق کیا تھے اور ان کا عدالتی جائزہ کیسے لیا گیا۔ اس پر غور آرٹیکل 186 کے دائرے میں نہیں آتا۔
 جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بھٹو سے ناانصافی ہوئی ہے یا نہیں یہ معاملہ فریق ثانی کی موجودگی میں سماعت کے طور پر نمٹایا جا چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قانونی ماہر کے طور پر اپنی رائے دیں۔ صدر نے 186 کے تحت ریفرنس بھیجا، ہم جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اس کیس کے حوالے سے ہماری ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ بھٹو کیس کی سماعت ہے یہ تاریخ بن رہی ہے آپ سے ہمیں بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھٹو کیخلاف ٹرائل میں بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی کی گئی، ججوں نے تعصب کا مظاہرہ کیا۔ جسٹس غلام ربانی نے کہا کہ آپ قانونی صورت حال کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں۔ فیصلہ جو بھی ہو، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ آپ آئینی اور قانونی حیثیت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ 
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنس کے حوالے سے عدالت کو بھرپور معاونت کی ضرورت ہے۔ اٹارنی جنرل مکمل تیاری کر کے عدالت کی آئینی نکات پر معاونت کریں کیونکہ کیس میں اٹارنی جنرل کا موقف بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ ہر قانونی نکتہ پر عدالت کی رہنمائی کریں۔ عدالت نے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی اور کہا کہ آئندہ لارجر بینچ کی دستیابی کے پیش نظر کی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 82014
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش