0
Tuesday 8 Oct 2019 14:51

خیبر پختونخوا، طالبات میں برقعے کی تقسیم پر سوشل میڈیا صارفین برہم

خیبر پختونخوا، طالبات میں برقعے کی تقسیم پر سوشل میڈیا صارفین برہم
اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا میں مقامی حکام کی جانب سے اسکول کی طالبات کو برقعے تقسیم کرنے کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ملک بھر سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔ خیال رہے کہ چینہ نامی گاؤں کے سرکاری اسکول میں ضلعی کونسلر نے بلدیاتی فنڈ سے 90 ہزار روپے خرچ کر کے 90 طالبات میں برقعے تقسیم کئے تھے۔ مقامی عہدیدار مظفر شاہ نے بتایا کہ اپنے عہدے کی 4 سالہ مدت کے اختتامی اقدام کے طور پر انہوں نے یہ برقعے والدین کی درخواست پر خریدے جو خود خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’90 فیصد طالبات پہلے ہی برقعے اوڑھتی ہیں لہٰذا میں نے سوچا کہ غریب لڑکیوں کو بھی نئے برقعے دینے چاہیئے‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے پہلے انہوں نے یہ فنڈز اسکول کیلئے شمسی توانائی کے پینلز خریدنے، بیت الخلا کی تعمیر اور نیا فرنیچر خریدنے میں خرچ کئے تھے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی 2 تصاویر نے برہمی کی لہر دوڑا دی جس میں سے ایک میں برقعوں کا ڈھیر رکھا ہوا، جبکہ دوسری تصویر میں طالبان برقعے اوڑھی ہوئی تھیں۔ ایک ٹوئٹر صارف فاطمہ علی نے کہا کہ ’تعلیمی میعار بہتر بنانے، ہراساں کرنے، بدسلوکی اور ریپ کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے بجائے برقعے خرید لئے گئے'۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ملک چھوڑ کر امریکا جانے والے خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی کارکن گلالئی اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ تبدیلی دیکھ کر خوشی ہوئی کہ لوگ خواتین کو کوئی شے سمجھنے کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں‘۔ اس حوالے سے مظفر شاہ کا کہنا تھا کہ ’مجھ پر ہونے والی تنقید سمجھ سے باہر ہے مقامی افراد مجھ سے بہت خوش ہیں، اگر میں لڑکیوں میں جینز تقسیم کرتا تو میڈیا اور لبرلز میری تعریف کرتے‘۔

اس ضمن میں صوبائی وزیر تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کا حکم دیدیا گیا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ برقع اسکول یونیفارم کا حصہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول یونیفارم میں سفید شلوار اور نیلی قمیض شامل ہے اور یہ طالبات پر منحصر ہے کہ وہ برقع اوڑھنا چاہتی ہیں یا نہیں ہم انہیں مجبور نہیں کرسکتے۔ خیال رہے کہ برقع تقسیم کرنے سے 2 ہفتے قبل حکومت طالبات کیلئےجاری کردہ ایسے ہی ایک حکم نامے کو منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئی تھی جس میں طالبات کو لازمی برقع اوڑھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ خیال رہے کہ قدامت پسند پشتون علاقوں میں برقع اوڑھنے کی روایت صدیوں سے موجود ہے اور یہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز اسوقت بنا جب طالبان نے برقع نہ اوڑھنے پر خواتین کو سزائیں دیں۔
خبر کا کوڈ : 820838
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش