0
Saturday 2 Jul 2011 18:48

افغانستان سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا عمل شروع ہو گیا

افغانستان سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا عمل شروع ہو گیا
کراچی:اسلام ٹائمز۔ افغانستان سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا عمل شروع ہو گیا، دس ہزار امریکی فوجیوں نے وطن واپسی کیلئے بوریا بستر باندھ لیا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے فوجی بھی اپنا مشن سمیٹنے لگے، امریکی صدر باراک اوبامہ کے اعلان کردہ منصوبے کے تحت رواں سال کے آخر تک دس ہزار جبکہ دو ہزار بارہ تک تینتیس ہزار فوجی واپس بلائے جائیں گے۔ امریکی میڈیا کے مطابق افغانستان میں جولائی کے مہینے میں انخلاء کرنیوالے دس ہزار امریکی فوجیوں نے وطن واپسی کیلئے بوریا بسترباندھ لیا جبکہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی فوج بھی اپنا مشن سمیٹنے لگیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق جن لڑاکا دستوں نے وطن واپس روانہ ہونا ہے، اس کا فیصلہ ایک دو روز میں ہو جائیگا۔
امریکی صدر باراک اوبامہ نے اکیس جون کو افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت جولائی سے افغانستان میں امریکی فوج کی واپسی کا عمل شروع ہوگا اور پہلے مرحلے میں رواں سال کے اختتام تک دس ہزار جبکہ اگلے سال کے اختتام تک تینتیس ہزار فوجی واپس بلائے جائیں گے، دس سالہ جنگ کے جلد بازی میں ختم کرنے کے معاملہ پر امریکی انتظامیہ میں اختلافات بھی پائے گئے اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے امریکی صدر کو انخلاء کے حوالے سے جو تجاویز دی تھیں اس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے انخلاء کا عمل سست رفتار ہونا چاہیئے اور انخلاء اگلے سال جولائی سے شروع کیا جائے, تاہم امریکی صدر نے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی تجاویز کے برعکس زیادہ جارحانہ انداز میں انخلاء کا اعلان کیا۔ انخلاء کے عمل کی ابتدا میں امریکہ اپنے تیس ہزار فوجی واپس بلائے گا جبکہ اگلے برسوں کے دوران جرمن فوجیوں کی تعداد بھی کم کر دی جائے گی۔ اس طرح افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء دو ہزار چودہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ دو ہزار ایک میں طالبان کے دور حکومت کے خاتمہ کے بعد افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تین اہداف حاصل کرنا تھے، القاعدہ کو ختم کرنا، ایک جمہوری نظام قائم کرنا اور افغانستان کے آس پاس کے خطے کو مستحکم کرنا، ان تین اہداف میں سے کسی ایک ہدف میں بھی کامیابی ممکن نظر نہیں آئی۔
رواں برس پانچ دسمبر کو بون شہر میں ایک افغان کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی۔ اس کانفرنس میں عالمی برادری اس صورتحال پر غور کرے گی، جو آئی سیف دستوں کے بعد کے افغانستان میں پیدا ہو گی۔ ساتھ ہی تعمیر نو کے منصوبوں پر بھی بات ہو گی کہ کس طرح غیرملکی افواج کی غیر موجودگی میں ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جائے۔ دوسری جانب ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق، افغانستان اور پاکستان میں جاری جنگوں کے باعث امریکی خزانے کو ہونے والے نقصان کا اندازہ اصل سے بہت کم کر کے پیش کیا گیا ہے۔
امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے جنگی اخراجات نامی ریسرچ پراجیکٹ کے مطابق امریکی معیشت کو یہ جنگیں کم از کم تین اعشاریہ سات ٹریلین ڈالرز میں پڑی ہیں، بلکہ یہ اخراجات چار اعشاریہ چار ٹریلین ڈالرز تک ہو سکتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد دو ہزار ایک میں افغانستان میں القاعدہ لیڈروں کا قلع قمع کرنے کی غرض سے امریکی فوجوں کی وہاں روانگی اور دیگر تنازعات پر اٹھنے والے اخراجات کا اندازہ دو اعشاری تین ٹریلین سے دو اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر تک ہے۔
خبر کا کوڈ : 82454
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش