0
Monday 4 Nov 2019 19:58
اے پی سی کی اندرونی کہانی

اپوزیشن کا اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ

مولانا نے ناکام واپسی کے امکان کو قطعاً مسترد کر دیا
اپوزیشن کا اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ
اسلام ٹائمز۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ فیصلہ آج ہونے والی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اجلاس کے دوران حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دور شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ٹی وی چینل نے اہم پارٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دھرنے کو ایک سے دو روز میں ختم کیے جانے کا امکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) نے اپنے 15 اراکین قومی اسمبلی سے استعفے طلب کر لیے ہیں، جو قیادت کے پاس رہیں گے اور مناسب وقت پر ان کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ اے پی سی آزادی مارچ کے مستقبل کے حوالے سے ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پر مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر اختلاف کا شکار ہوگئیں۔ رپورٹ کے مطابق اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جو متفقہ فیصلہ ہوگا، اس کا اعلان جلسہ گاہ میں جا کر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنان ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، ہم اتفاق رائے کے ساتھ آگے جانا چاہتے ہیں۔

اجلاس کے دوران نون لیگ نے مؤقف اختیار کیا کہ غیر جمہوری عمل کی حمایت نہیں کرسکتے۔ نون لیگ کے وفد نے مشورہ دیا کہ پرامن مارچ کی مکمل حمایت کریں گے، تاہم پرتشدد سرگرمی میں ساتھ نہیں دیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے وزیراعظم کے استفعے کی ڈیڈ لائن پھر آج رات ختم ہونے والی ہے۔ دوسری جانب صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبد الواسع نے استعفے جمع کرانے کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ سمیت جے یو آئی ایف کے تمام ارکان نے اپنے استعفے مولانا فضل الرحمان کو جمع کرا دیئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اے پی سی کے بعد جماعت کا اہم اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے صدر و سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کمر میں تکلیف کے باعث کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ دوسری جانب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بہاولپور میں موجودگی کے باعث آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔

یاد رہے گذشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت پارٹی کے طویل مشاورتی اجلاس کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے رویئے پر مشکلات کا شکار ہوگئی ہے۔ میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان رہبر کمیٹی کی تجاویز اور کارکنوں کے جذبات کی کشمکش میں پھنس گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے سینیٹر طلحہ محمود اور کامران مرتضٰی کو بھی طلب کیا ہے، کامران مرتضٰی نے اجلاس میں قانونی و آئینی نکات پر اجلاس میں بریفنگ دی۔ انہوں نے بتایا کہ سینیٹر طلحہ محمود نے دیگر سیاسی جماعتوں، تاجروں اور سماجی تنطیموں سے رابطوں پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں کارکنوں میں پائے جانے والے جذبات سے متعلق بھی امور پر غور کیا گیا۔ گذشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی ہدایت پر پارٹی رہنماؤں نے دھرنے کے شرکاء میں وقت گزرا تھا۔ ذرائع کے مطابق دھرنے میں پائے جانے والے کارکنوں کے جذبات پر بھی صوبائی امراء نے بریفنگ دی۔

مولانا فضل الرحمان نے ناکامی کے ساتھ واپس جانے کے آپشن کو مسترد کر دیا اور اجلاس میں ڈی چوک جانے اور چند روز میں واپسی پر غور کیا گیا۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) سربراہ نے حکومت کو مزید 24 گھنٹے کی مہلت دینے پر بھی مشاورت کی۔ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ جمعرات کو اسلام آباد پہنچا۔ ایک روز بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو روز کی مہلت دی تھی، جو آج ختم ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ میرے منہ سے تین الفاظ یعنی این آر او سننا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے حزب اختلاف کا نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں، این آر او نہیں دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ان کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے، ملک ترقی کی راہ پر نہیں آسکتا۔
خبر کا کوڈ : 825611
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش