0
Friday 15 Nov 2019 21:00
ہفتۂ وحدت سے مراد اسلامی اتحاد کی ضرورت پر دلی یقین اور ایمان پیدا کرنا ہے،

اسرائیل کا خاتمہ، فلسطین پر وہاں کے مسلم، عیسائی اور یہودی باسیوں کی حکومت کا قیام ہے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای

آج اسلامی دنیا کی مشکلات، مشترکہ دشمن کے مقابلے میں آپسی اختلاف سے پرہیز نہ کرنیکی بناء پر ہیں۔
اسرائیل کا خاتمہ، فلسطین پر وہاں کے مسلم، عیسائی اور یہودی باسیوں کی حکومت کا قیام ہے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جشنِ ولادت اور ہفتۂ وحدت کے حوالے سے منعقد ہونے والی "وحدت اسلامی کانفرنس" میں اسلامی جمہوری نظام کے اہلکاروں، اسلامی ممالک کے سفیروں اور ملک بھر سے آئی عوام سے خطاب کے دوران آج کی اسلامی دنیا کے مصائب خصوصا فلسطین کی ابتر صورتحال کی اصلی وجہ اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کے فقدان کو قرار دیا اور صیہونی رژیم اسرائیل کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کا مطلب وہاں مسلط غاصب و جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور فلسطین کے اصلی مُسلم، عیسائی و یہودی باسیوں کی حکومت کی تشکیل کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے دشمن اور ان میں سرفہرست امریکہ، سرے سے اسلام اور تمامتر اسلامی ممالک کے خلاف ہیں جبکہ اس دشمنی میں انکا اصلی حربہ ہمارے خطے کے حساس اور فیصلہ کن مراکز میں اپنا نفوذ، قوموں کے درمیان اختلاف ڈالنا اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانا ہے کہ "تمام مسائل کا حل امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا" ہے، جس کا بہترین حل لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا اور حق کے رَستے پر ڈٹے رہنا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے شروع میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے جانشین حضرت امام جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام کے یوم ولادت پر مبارکباد پیش کی اور آپؐ کو "قرآنِ مجسم"، "پروردگارِ عالم کی برترین اور باعظمت ترین مخلوق" اور "زندگی بخشنے اور انسانی معاشروں کو روشن کرنے والا نور" قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت ان حقائق کو بتدریج درک کر لے گی جبکہ ہمیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں رحمت اللعالمینؐ کے مقدس یوم ولادت کے بابرکت موقع پر اسلامی دنیا اس حال میں خوشیاں منا رہی ہو گی جب انکے تمامتر غم و اندوہ دور ہو چکے ہوں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 12 تا 17 ربیع الاول کو ہفتۂ وحدت کے عنوان سے منانے کو نہ صرف ایک تکنیکی سیاسی اقدام بلکہ "وحدت اسلامی کی ضرورت پر دلی یقین اور ایمان" قرار دیا اور کہا کہ اس بات کا یقین حتی اسلامی انقلاب کے وجود میں آنے سے قبل بھی موجود تھا جسکی ایک بڑی مثال عالم تشیع کے عظیم مرجع آیت اللہ بروجردی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے وحدت اسلامی کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے اس کا سب سے پہلا مرحلہ اسلامی معاشروں، حکومتوں، قوموں اور مذاہب کو ایکدوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام اٹھانے سے مکمل پرہیز اور مشترکہ دشمن کے مقابلے میں آپسی اتحاد کو قرار دیا اور کہا کہ اسکے بعد کے مراحل میں اسلامی ممالک کو ایکدوسرے کیساتھ ملکر اپنے علم، دولت، سکیورٹی اور سیاسی طاقت کے ذریعے "نئے اسلامی تمدن" کے قیام کیلئے کوششیں کرنا چاہئیں جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے "نئے اسلامی تمدن کے قیام" کو اپنا آخری ہدف قرار دے رکھا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اور سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج کی اسلامی دنیا میں موجود مصائب و آلام اور خصوصا فلسطین کی ابتر صورتحال کو مسلمانوں کے درمیان باہمی اختلاف سے پرہیز نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مصیبت، فلسطین کا مسئلہ ہے، ایک ایسی قوم جسے مکمل طور پر اپنے گھروں سے نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین، اسکی آزادی اور اسکی نجات کے حامی ہیں اور اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ اسرائیل کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سارے کے سارے یہودی مار دیئے جائیں، کیونکہ یہودی عوام کیساتھ تو ہمارا کوئی جھگڑا نہیں جیسا کہ خود ایران کے اندر بیشمار یہودی مکمل امن و امان کیساتھ بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے خاتمے سے مراد وہاں مسلط شدہ صیہونی رژیم کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے اصلی باسی چاہے مسلمان، عیسائی یا یہودی کوئی بھی ہوں، اُس سرزمین کے اصلی باسیوں کی وہاں حکومت ہونی چاہئے جبکہ وہاں موجود باہر سے آئے بنجمن نیتن یاہو جیسے ارازل و اوباش لوگوں کو نکال باہر کردینا چاہئے اور فلسطین کی حکومت وہاں کے اصلی باسیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہئے جبکہ یہ ضرور ہو کر رہے گا!

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکہ و اسرائیل سمیت اسلامی اتحاد کے تمامتر دشمنوں کی دشمنی کو پورے عالم اسلام کے خلاف دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کی اصلیت ظلم، استکبار اور بیجا تسلط کا خاتمہ ہے لہذا وہ اسلام کی اصلیت اور تمامتر اسلامی ممالک کے خلاف ہیں جبکہ یہ خیال کہ وہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن ہیں، درست نہیں۔ انہوں نے سعودیوں کے بارے میں امریکیوں کے توہین آمیز الفاظ کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی کھل کر کہتے ہیں کہ سعودیوں کے پاس پیسے کے علاوہ کچھ نہیں، یعنی وہ کہتے ہیں کہ آؤ مل کر اُنہیں لوٹیں! جبکہ یہ اظہار نظر ایک اسلامی ملک و قوم کیساتھ کھلی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے البتہ مدّمقابل کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ایسی توہین کے جواب میں عربی غیرت اور اسلامی عزت کے حوالے سے انکی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 827594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش