0
Wednesday 27 Nov 2019 11:07

میلاد صادقین (ع) و اتحاد و اخوت کانفرنس قم کی مختصر رپورٹ

میلاد صادقین (ع) و اتحاد و اخوت کانفرنس قم کی مختصر رپورٹ
رپورٹ: ایچ آر شاہ

قم کی مقدس سرزمین پر ہفتہ وحدت کی مناسبت سے پاکستانی طلاب کی جانب سے میلاد صادقین (ع) و اتحاد و اخوت کانفرنس کے عنوان سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کے بانیان میں دفتر قائد ملت جعفریہ قم، مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم، مرکز تحقیقات اسلامی بعثت (تحریک بیداری امت مصطفیٰ)، جامعہ روحانیت بلتستان، جامعہ روحانیت سندھ، جامعہ روحانیت خیبر پختونخواہ، جامعہ روحانیت بلوچستان(اندرون)، المجتبیٰ فاونڈیشن سندھ، موسسہ ولایت اور جامعہ بعثت پاکستان شعبہ قم پیش پیش تھے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا گیا۔

پروگرام کے پہلے خطیب مرکز تحقیقات اسلامی بعثت (تحریک بیداری امت مصطفیٰ) کی نمائندگی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام آقای سید علی عمران نقوی نے کہا کہ دشمن کے فتنوں میں سے ایک تفرقہ ہے۔ اتحاد و وحدت وقتی ضرورت کا نام نہیں بلکہ نماز روزہ کی طرح ایمان کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اسی تفرقہ کا ہی نتیجہ ہے۔ اتحاد قرآنی دعوت ہے اور ید اللہ مع الجماعہ سے ظاہر ہے کہ امداد الہیٰ بھی ان کے ساتھ ہے، جو وحدت کو قائم رکھتے ہیں۔ حج، واحد امت ہونے کی تمرین کا نام ہے۔

جامعہ روحانیت سندھ، جامعہ روحانیت بلوچستان اندرون، المجتبیٰ فاونڈیشن سندھ اور سندھ و بلوچستان کی دیگر تشکلات کی نمائندگی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام آقای وسیم سبحانی نے کہا کہ اتحاد و وحدت قضایا فطریات میں سے ہے۔ مشترک دشمن کے مقابلے میں متحد ہونے سے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن وحدت کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم اپنے مخصوص اعتقادات سے دستبردار ہو جائیں یا حتیٰ اس میں ضعف و کمزوری کا اظہار کریں۔ وحدت کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس کی غلط تبیین و وضاحت ہے۔

جامعہ روحانیت بلتستان، جامعہ روحانیت خیبر پختونخواہ، موسسہ ولایت اور جامعہ بعثت پاکستان شعبہ قم کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام آقای فدا حلیمی نے کہا واعتصموا بحبل اللہ کی آیت اوس و خزرج کے متعلق نازل ہوئی، جو کہ مومنین کے دو گروہ تھے، لہذا یہ آیت مومنین کی داخلی وحدت کے بارے میں ہے۔ قرآن مجید نے اختلاف کی علت حسد اور ظلم و ناانصافی کو قرار دیا ہے۔ انما المومنون اخوۃ کی آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہمارے درمیان اخوت کا رشتہ نہیں ہے تو ہمیں ایمان کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے۔ بزرگان سے گزارش ہے کہ وحدت کی کوشش اپنی پارٹی کے افراد کو نصیحت سے شروع کریں اور دیگران سے گزارش ہے کہ اپنے بزرگان سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ جب بزرگان ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہتے تو ہم ان سے بڑھ کر اختلاف کیوں کرتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کی نمائندگی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام آقای ڈاکٹر عادل مہدوی نے کہا کہ ملی اتحاد کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑی تو ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ رنگ، قوم، قوت ارادہ، نظریہ، فکر، کام کرنے کا انداز اور علاقے کے فرہنگ کے اختلاف کی قرآن نے نفی نہیں کی، البتہ قانون دیا ہے کہ یہ اختلافات کم رنگ ہوں، جبکہ دین کے اختلاف کی قرآن نے مذمت کی ہے۔ ہم سب ولایت فقیہ کے ماننے والے ہیں باقی صرف روش کا اختلاف ہے اور وہ قابل حل ہے۔

دفتر قائد ملت جعفریہ قم کی نمائندگی کرتے ہوئے حجۃ الاسلام آقای غضنفر حیدری نے کہا کہ جس زمانہ میں ہم متحد تھے، اس وقت ہم قدرت و قوت میں تھے۔ ایک کونے سے نعرہ بلند ہوتا تو پوری ملت آمادہ ہو جاتی، یہ اتحاد کے ثمرات تھے۔ ہمارے جوان تقویٰ و پاکیزگی کی مثال تھے۔ آج ہمارا جوان تقویٰ کے اس مقام پر نہیں ہے۔ آج ہماری کمزوری کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہمارے جوان زندانوں میں ہیں اور کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہمارے داخلی اختلافات ہیں۔

پروگرام کے مرکزی خطیب آیت اللہ محسن اراکی دامت برکاتہ نے کہا پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے، امت اسلامی پر بہترین اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ اگر ہم ان پانچ نکات پر توجہ کریں تو ہم کبھی تفرقہ بازی نہیں کریں گے۔
1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تفرقہ کو عذاب کی ایک قسم قرار دیا ہے اور وحدت کو رحمت اور نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ جس اختلاف کو روایت میں رحمت قرار دیا ہے، وہ رفت و آمد کے معنی میں ہے نہ کہ تفرقہ کے معنی میں۔
2۔ قرآن مجید نے مومنین کے درمیان جو اخوت کا رشتہ قرار دیا ہے، وہ ابویت پیامبر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم فرزندی پیامبر میں ہیں تو کبھی ہمیں آپس کا اخوت کا رشتہ نہیں بھولنا چاہیئے۔

3۔ اگر ہم واقعی مسلم و مومن ہوں تو ہماری پسند و ناپسند ایک جیسی ہو جائے گی تو پھر کبھی اختلاف نہیں ہوگا۔ ہر ایک امریکہ و اسرائیل سے نفرت کرے گا۔ کوئی ان سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔
4۔ مسلمان ممالک اتنے وسائل ہونے کے باوجود آج ذلیل و رسوا ہوچکے ہیں۔ البتہ مقاومت کے علاوہ ممالک کی بات کر رہا ہوں۔ سعودی عرب کو ٹرامپ نے دودھ دینے والی گائے کہا، کیا یہ کم شرمندگی ہے؟ یہ سب  اتحاد و وحدت کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔
5۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔؟ آپ برصغیر کو لے لیں، برطانوی استعمار نے اس خطے کے لوگوں پر کتنا ظلم کیا۔ ہم ایک دوسرے کو اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں، حالانکہ ہمارا اصلی دشمن امریکہ ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں فکر کرنی چاہیئے۔

دوران پروگرام نظامت کے فرائض سرانجام دینے والے برادر زین عباس نے جب یہ شعر پڑھا تو پورے مجمع نے اس قدر داد و تحسین سے نوازا کہ گویا پوری قوم کا اپنے رہبران سے اسی طرح کے رویئے کا تقاضا ہو۔
زندگی میں یہ ہنر بھی آزمانا چاہیئے
جنگ اگر اپنوں سے ہو تو ہار جانا چاہیئے
خبر کا کوڈ : 829330
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش