0
Wednesday 27 Nov 2019 21:58

وزیراعلٰی متعصبانہ پالیسی ترک کریں ورنہ خاموش نہیں رہیں گے، امامیہ کونسل گلگت

وزیراعلٰی متعصبانہ پالیسی ترک کریں ورنہ خاموش نہیں رہیں گے، امامیہ کونسل گلگت
اسلام ٹائمز۔ مرکزی امامیہ کونسل گلگت بلتستان کے ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ دنوں وزیراعلٰی جی بی کے دفتر سے جو بیان جاری ہوا ہے وہ بالکل حقائق کے برعکس ہے۔ امامیہ کونسل کے وفد نے وزیراعلٰی سے ملاقات کے دوران اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس دوران وہ وفد کو مطمئن کرنے میں بْری طرح ناکام رہے۔ وفد نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ترقیاتی منصوبے عوام کے بہتر مفاد کیلئے ہوتی ہیں نہ کہ مسلکی بنیاد پر۔ موجودہ آر سی سی پْلوں کی دریائے گلگت پر تعمیر کے حوالے سے امامیہ کونسل کا واضع موقف رہا ہے کہ پل وہاں تعمیر کئے جائیں جہاں زیادہ سے زیادہ عوام کو فائدہ ہو۔ کونسل ترقیاتی منصوبوں کی مخالف نہیں بلکہ غیر موزوں مقامات کے تعین کی مخالفت کرتی ہے۔ وزیراعلٰی صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ جہاں 200 گھرانے ہوں وہاں پل تعمیر کیا جائیگا تو کیا جلال آباد، اوشکھنداس، بگروٹ اور محمد آباد دنیور کی 20 ہزار آبادی کیلئے پل کی ضرورت نہیں؟ اس لئے کہ یہ اْن کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کیا بسین کھاری میں ایک پل کی موجودگی کے باوجود دوسر ے پل کی تعمیر صرف دہشت گردوں کو آسان رسائی کے علاوہ اور کیا ہے۔ امامیہ کونسل نے ہر سطح اور فورم پر یہ موقف رکھا ہے کہ ترقیاتی منصوبے عوام کو بلاتفریق مذہب، رنگ و نسل رکھے جائیں، انجینئرینگ کمیٹی کے معائنے کے دوران امامیہ کونسل کے صدر سابق چیف انجینئر وزیر محمد مظفر عباس کے موقف کو چیف انجینئر اور سیکرٹری ورکس نے امامیہ کونسل کے موقف کو تسلیم کیا ہے، اس کے باوجود زور زبردستی سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیراعلٰی نے اپنے دور میں جس قدر کرپشن، اقرباپروری اور متعصبانہ پالیسی اپنائی ہے اس کا محاسبہ کسی نہ کسی وقت ضروری ہوگا۔ وہ کون سا محکمہ ہے جہاں پر وزیراعلٰی نے تعصب کا مظاہر ہ نہیں کیا ہے۔ کیا ملازمتیں صرف ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا حق ہے؟ گلگت کے دوسرے جوانوں کو نہیں؟

مرکزی امامیہ کونسل کے ترجمان نے مزید کہا کہ اسی طرح ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت کا قدیمی اور مرکزی ہسپتال ہے جہاں پر جی بی کے تمام غریب عوام کا علاج کیا جاتا ہے مگر وزیراعلٰی کو اب سٹی ہسپتال اور سیف الرحمٰن ہسپتال کی زیادہ فکر زیادہ ہے، آئے روز ماہر ڈاکٹروں کا تبادلہ ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال سے سٹی ہسپتال کیا جاتا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ گذشتہ ادوار میں تقریباً 60 سے زائد سٹاف اور ماہر ڈاکٹروں کا تبادلہ مختلف ہسپتالوں میں کیا گیا ہے اور تنخواہیں ہیڈکوارٹر ہسپتال سے لی جا رہی ہیں۔ کارگاہ کھنبری روڈ کا نام سیاحت کی ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں دہشت گردوں کو آسان رسائی دینے کیلئے ایک مذموم سازش تیار کی جارہی ہے۔ سال 20-2019ء کی اے ڈی پی پر ایک نظر ڈالیں تو عوام کو معلوم ہوگا کہ وزیراعلٰی نے صرف اپنے حلقے میں کس قدر انصاف سے کام لیا ہے۔ مناور سے آگے کے علاقوں کیلئے اے ڈی پی کی 90 فیصد سکیمیں صرف تعصب کی بنیاد پر رکھی گئی ہیں۔ صرف قبرستانوں، مساجد اور مدارس میں غیر موجود سہولتوں (missing facilities) کے نام پر تقریباً آٹھ کروڑ کی رقم رکھی گئی، کیا دیگر مساجد اور امام بارگاہوں میں سہولتوں کی ضرورت نہیں؟ حلقہ دو گلگت کیلئے فراہمی آب کے نام پر مناور سے جگلوٹ تک 32 کروڑ کی رقم رکھی گئی ہے جب کہ گلگت شہر کیلئے صرف 10 کروڑ کی رقم؟

جہاں تک علاقے میں امن کے قیام کا تعلق ہے تو اس میں سب سے بڑا کردار ملت تشیع کا ہے، جنہوں نے کئی سالوں سے سینکڑوں لاشیں اٹھانے اور زیادتیوں کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ اب نئے الیکشن کا وقت آنے والا ہے، تو وزیراعلٰی نے پھر سے امن کے خلاف باتیں شروع کی ہیں اور دھمکیوں اور بےبنیاد الزامات پر اتر آئے ہیں۔ گلگت کے عوام جانتے ہیں کہ امن کو تباہ کرنے کی سازش کی ابتداء کس کے گھر سے ہوئی تھی اور آج وزیراعلٰی کے بھائی شہید امن کہلا رہے ہیں۔ ہمیں مجبور نہ کریں ورنہ سب کچھ عوام کے سامنے رکھا جائیگا۔ ترجمان نے اپنے بیان میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلٰی نے حالیہ اخباری بیان میں بتایا کہ وہ کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے تو ہمیں معلوم ہے کہ راتوں کو سی ایم ہاؤس میں وہ کس کی ڈیکٹیشن لیتے ہیں اور اْن کی میٹنگز کہاں اور کس کے ساتھ ہوتی ہیں عوام باخبر ہیں وزیراعلٰی بھی ڈکٹیٹر بننے کی کوشش نہ کریں۔ وزیراعلٰی نے سلطان آباد پْل کی افتتاحی تقریب میں خطاب کے دوران علمائے کرام کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے، کونسل انہیں آگاہ کرنا چاہتی ہے کہ یہ علاقہ اس قسم کے بیانات اور کردار کے متحمل نہیں ہو سکتا۔ گلگت کے عوام نے امن کی خاطر نہایت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ لہٰذا مرکزی امامیہ کونسل وزیراعلٰی اور اْن کے تمام کارندوں کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ حالات کو اس جانب جانے نہ دیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ ہم زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے اور متعصبانہ اور یکطرفہ، ظالمانہ، غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف آخری حد تک اپنے جائز قانونی حقوق کا دفاع کرینگے۔ ہم نے اِن تمام حالات واقعات سے حکومت کے تمام ذمہ داران کو اپنی ملاقاتوں میں اور تحاریر کے ذریعے آگاہ کیا ہے اگر پھر بھی ہماری تشویش کو نظرانداز کیا گیا تو حالات کی ذمہ دار حکومت وقت اور خاص کر وزیراعلٰی ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 829378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش