0
Sunday 1 Dec 2019 01:11

اختیارات نہیں، گلگت بلتستان کابینہ کا اجلاس ڈی چوک پر بلانے کا اعلان

اختیارات نہیں، گلگت بلتستان کابینہ کا اجلاس ڈی چوک پر بلانے کا اعلان
اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی کابینہ کا اگلا اجلاس ڈی چوک پر بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے اضلاع کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد نہ کرنے اور صوبائی حکومت کے اختیارات میں مداخلت کیخلاف صوبائی کابینہ کا اگلا اجلاس ڈی چوک پر بلائیں گے، اپوزیشن بھی آنا چاہے تو ویکم کریں گے، وہاں کسی کو گالیاں نہیں دیں گے، کوئی گملہ نہیں توڑیں گے بلکہ میڈیا اور دوسرے لوگوں کو بلائیں گے اور بتائیں گے کہ وفاقی حکومت نے ہمیں جو اختیار دیا تھا اس پر عمل کرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں نئے اضلاع کے حوالے سے ایک قرارداد پر بحث کے دوران خطاب کرتے ہوئے حفیظ الرحمن نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے آخری اجلاس میں اتفاق ہوا تھا کہ گلگت بلتستان کے اپنے نمائندوں کے ذریعے سے ہی کوئی نظام دیا جائے گا کیونکہ آرڈر 2019ء کو قومی اسمبلی کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے تو بعد میں لوگ یہ نہ کہیں کہ جس اسمبلی میں ہماری نمائندگی نہ ہو وہ کس طرح یہاں کوئی نظام لاگو کر سکتی ہے، اس لئے جی بی اسمبلی اور کونسل کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، جس کی صدارت چیئرمین کونسل کریں گے اور ریفارمز کو جوائنٹ سیشن میں پیش کی جائیں۔ اس اتفاق کے بعد میری اور گنڈاپور کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ تاریخ طے کریں اور مشترکہ اجلاس کیلئے ماحول بنائیں۔

اسی میٹنگ میں کہا گیا کہ جی بی اسمبلی میں ہماری (تحریک انصاف) کا ایک ہی نمائندہ ہے جبکہ نوں لیگ کی اکثریت ہے چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اور اسمبلی کا ماحول خراب بھی ہو سکتا ہے، میڈیا غلط رنگ دے سکتا ہے۔ جس پر ہم نے بتایا کہ اگر اس طرح کا کوئی خدشہ ہے تو وزیراعظم جو کونسل کے چیئرمین ہیں وہ تمام اراکین اسمبلی کو اسلام آباد بلائیں اور ان کیمرہ سیشن میں بحث کرائیں، بعد میں اسمبلی و کونسل کے مشترکہ اجلاس میں پیش کریں۔ اس فیصلے کے بعد میں 22 مرتبہ گنڈاپور سے رابطہ کر چکا ہوں لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا۔ ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا، تمام اراکین سے رائے لی اور رپورٹ بھیج دی کہ کون کون کس نظام کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرڈر 2019ء کے خلاف ہم نے اس لئے سٹینڈ لیا تھا کہ ایک شخص کو جج لگانے کیلئے عمر کی شرط 70 سال رکھی گئی، ہمیں خدشہ ہوا کہ جب چاہے کسی کو نوازنے کیلئے اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے، اس لیے جو نظام دینا ہے جی بی کے نمائندوں کے ذریعے ہی دیا جائے۔


سی ایم جی بی کا کہنا تھا کہ 2018ء کے آرڈر میں وفاقی قانون سازی کی لسٹ دی گئی تھی، یہ لسٹ تمام صوبوں کے پاس ہے، یعنی وہ اس لسٹ پر قانون سازی نہیں کر سکتے  یہ وفاق کا سبجیکٹ ہے، باقی تمام چیزوں پر قانون سازی کی جا سکتی ہے، 2018ء کے آرڈر میں کہیں نہیں لکھا کہ صوبائی حکومت نئے اضلاع نہیں بنا سکتی۔ ہم نے اضلاع کے حوالے سے ایک پالیسی بنائی، فاصلہ، آبادی اور پسماندگی کو مدنظر رکھا گیا، اس پالیسی کے تحت روندو، داریل، تانگیر اور گوپس یاسین اضلاع کیلئے موزوں تھے، پوسٹوں کی تخلیق بھی تیار ہے صرف تبادلے کرنا باقی تھا، اسی دوران چیف سیکرٹری نے تجویز دی کہ آرڈر 2018ء میں اضلاع کی تعداد 10 ہے، اب چار نئے اضلاع کے قیام کے بعد آرڈر میں اضلاع کی تعداد 14 کرنی ہے، چونکہ آرڈر میں ترمیم کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے اس لئے ایک سمری بھیجی گئی، 3 ماہ تک کوئی جواب نہیں آیا، بعد میں ایک خط آیا جس میں پوچھا گیا تھا کہ پہلے تین اضلاع کیسے بنائے گئے اور پھر نئے اضلاع کن وسائل سے بنائیں گے؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم آپ سے پیسے نہیں مانگ رہے کیونکہ پہلے صوبے کی اپنی نان ٹیکس آمدن صرف ساڑھے 12 کروڑ روپے تھی، اب سوا ارب روپے ہے، اضلاع کو چلانے کے لئے سالانہ 10 کروڑ کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد پھر پوسٹوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2009ء کے آرڈر میں پوسٹوں کی تخلیق کا اختیار صوبائی حکومت کو حاصل تھا، اس وقت جب کچھ زیادہ ہی اسامیاں پیدا کی گئیں تو سابق چیف سیکرٹری نے وفاق کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ پوسٹوں کی تخلیق کے اختیار کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، اس کو واپس لیا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جب وفاق کسی بھی آرڈر کے تحت کوئی بھی اختیار دیتا ہے تو اس آرڈر اور اختیار کو واپس لینے کا اختیار ایوان کو ہونا چاہیے کسی بیوروکریٹ کو نہیں۔ یہاں وزیراعظم سے میٹنگ ہوئی تو انہیں بھی بتایا گیا کہ ہمارے پاس پرائمری سکول سے لے کر اسمبلی تک کی اسامیوں کیلئے پی سی فور کا اختیار وفاق کے پاس ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کوئی پرائمری سکول بناتے ہیں تو جب تک وفاق سے پی سی فور کی منظوری نہیں آتی تو تب تک کیا ہم پرائمری سکول کو تالے لگا کر رکھیں؟ اس معاملے کا حل نکلنا چاہیے۔ حفیظ الرحمن نے کہا کہ ہمیں اپنے اختیارات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چایئے کیونکہ ہم پہلے ہی اختیارات کا رونا رو رہے ہیں۔

''سی پیک ٹوٹل قرضہ ہے، منصوبے لگیں گے تو واپس بھی کرنا ہوں گے''
اس سے پہلے سی پیک منصوبوں کے حوالے سے پیش کی گئی قرارداد پر بحث کو سمیٹے ہوئے وزیر اعلیٰ جی بی نے کہا کہ سی پیک ماڈل کو سمجھنا ضروری ہے، اگر ہم ماڈل سمجھے بغیر منصوبے لائیں گے تو بعد میں رونا پیٹنا شروع کریں گے کیونکہ شرائط بہت سخت ہیں۔ ہم نے سی پیک کو سٹڈی کی ہے، بحیثیت صوبے کا چیف ایگزیکٹو جے سی سی کی میٹنگ میں شریک ہوتا رہا، یہ ٹوٹل بزنس ماڈل ہے، چینی بنکوں نے قرضہ دینا ہے، پاکستانی اور چینی کمپنیوں کا جوائنٹ وینچر بننا ہے اور پھر ان قرضوں کی حکومت پاکستان نے گارنٹی دینی ہے۔ اگر چینی کمپنیوں نے یہاں 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی ہے تو یہ بجلی وہ پاکستان کو فروخت کر دی ہے اور چائینز اپنی انویسٹمنٹ کو واپس لے رہے ہیں۔ اسی طرح سی پیک کے تحت موٹروے، گلگت سے خنجراب اور برہان تک قراقرم ہائی وے پر 282 ارب روپے لگے ہیں، یہ چین منصوبے چین نے بنائے ہیں اور وفاق نے قرضہ لیا ہے، اس قرضے کو واپس کرنا ہے۔

حفیظ الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ اسی ماڈل کے تحت گلگت  بلتستان کو بھی دو منصوبے ملے جس میں 80 میگاواٹ کا پھنڈر اور 100 میگاواٹ کا کے آئی یو پاور منصوبہ شامل ہے، ان منصوبوں کی جے سی سی کی چھٹی میٹنگ میں منظوری دی گئی تھی۔ جب اس حوالے سے میٹنگ ہوئی تو پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آپ نیشنل گرڈ سے منسلک  ہیں؟ پھر ہمیں بتایا گیا کہ سی پیک کے تحت ہم ان منصوبوں کو مکمل کرتے ہیں لیکن آپ کو بجلی خریدنی ہوگی، جب ہم نے قیمت پوچھی تو بتایا گیا کہ ملک بھر میں چائینز تھرمل اور کوئلے سے بجلی پیدا کر کے فی یونٹ 13 سے 16 روپے تک فروخت کر رہے ہیں، ہمارا چونکہ ہائیڈل پراجیکٹ ہے اس لئے فی قیمت 11 روپے فی یونٹ ہوگی، یعنی ہم نے چائینز سے 11 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدنی ہے، اب صوبائی حکومت 11 روپے میں بجلی خریدے گی اور اس کے بعد 16 روپے میں ہم بیچ دیں گے تو کیا عوام قبول کریں گے؟ کیونکہ ہم یہاں بجلی ڈھائی روپے سے 6 روپے تک بیچ رہے ہیں۔ اس معاملے کو ہم نے کابینہ میں زیر بحث لایا کہ کیا ہم اسطرح کا منصوبہ لگائیں گے تو عوام تیار ہیں؟ عوام ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ جس کے بعد ہم دوبارہ تجویز لے کر وفاق گئے اور اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے مطالبہ کیا کہ ہمیں وہ منصوبے دیے جائیں جس کی بعد میں ریکوری نہ ہوم ہمیں گرانٹ دی جائے جو واپس نہ کرنا پڑے، کیونکہ سی پیک میں تو چینی گرانٹ دینے کیلئے راضی نہیں۔ ہماری تجویز پر نوازشریف نے خواجہ آصف کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی، جس نے فیصلہ کیا کہ جی بی کو وفاقی پی ایس ڈی پی سے منصوبے دئیے جائیں گے۔ 2015ء میں وفاقی پی ایس ڈی پی میں گلگت بلتستان کے ٹوٹل ایک ارب 70 کروڑ کے منصوبے تھے، آج 129 ارب کے منصوبے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک ماڈل کل ہی مل سکتا ہے لیکن آئی پی پیز ماڈل پر جانا ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ منصوبوں کو گرانٹ پر لایا جائے تاکہ واپس نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ شروع میں سی پیک میں 9 اکنامک زونز تھے، اب صرف 2 ہے، سی پیک کے تحت صرف بلوچستان میں گرانٹ دی جا رہی ہے باقی کسی جگہ ایسا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرپوہ منصوبے کی فنڈنگ پچھلی حکومت نے کی تھی، جس پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا، شغرتھنگ کیلئے ابھی تک کوئی فنڈز نہیں دیے جا رہے ہیں، ہنزل پراجیکٹ کا ایک سال پہلے ٹینڈر ہوا لیکن منسٹری کوئی کام نہیں کر رہی

حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ سکردو گلگت روڈ کی فنڈنگ بھی تاخیر کر دی گئی۔ پہلے طے ہوا تھا کہ سالانہ 10 ارب روپے ایف ڈبلیو او کو دیے جائیں گے، اب کہا جا رہا ہے کہ صرف 3 ارب روپے ملیں گے، اس طرح تو یہ منصوبہ 2029ء میں بھی مکمل نہیں ہوگا۔ گلگت چترال ایکسپریس وے سی پیک کا متبادل روٹ ہے، اس کے بھی دو حصے کیے گئے، ایک کی منظوری دی گئی دوسرے کی ابھی تک نہیں ملی، جبکہ رواں سال کی پی ایس ڈی پی سے منصوبے کو ہی نکال دیا گیا جس پر میں نے یہ معاملہ قومی سلامتی کمیٹی میں بھی اٹھایا تو سابق ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر کی مداخلت پر دوبارہ شامل کیا گیا، اب اس منصوبے کو بھی سی پیک سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شونٹر کے حوالے سے چینی اور کورین کمپنیوں نے فیزیبلٹی بنائی تھی، فیزیبلٹی رپورٹ میں منصوبے کا تخمینہ 250 ارب روپے لگایا گیا، اگر اس روٹ کو آل ویدر بنایا جاتا ہے تو اس صورت میں سالانہ 60 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ جب یہ تخمینہ ہم نے دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے، اب صوبائی حکومت اور آزاد کشمیر حکومت نے مشترکہ طورپر اس پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سپارکو کو اس کی فزیبلٹی کیلئے کہا گیا ہے، 30 کروڑ روپے کشمیر حکومت جبکہ 20 کروڑ روپے ہم نے دینا ہیں۔

''میں تو تب تک ڈی چوک سے نہیں اٹھوں گا جب تک آئینی حقوق نہیں ملتے''
قرارداد پر بحث کے دوران صوبائی وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے اعلان کیا کہ میں ڈی چوک سے تب تک نہیں اٹھوں گا جب تک آئینی حقوق نہیں ملتے، گلگت بلتستان کا بنیادی مسئلہ آئینی حقوق کا نہ ہونا ہے، ہمارے مسائل وفاق میں ہماری نمائندگی کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ وفاقی کابینہ میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، وہاں پر ہماری نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے، اگر وفاقی کابینہ میں ہماری نمائندگی ہوتی، قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہماری نمائندگی ہوتی تو ہم اتنے بے بس نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جانوں کی قربانی دے کر ان علاقوں کو آزاد کرا کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر گزشتہ ستر سالوں سے ہمیں آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو کبھی اس مسئلے کو ٹالنے کیلئے فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے مزید کہا کہ جب ہم آئینی حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ قوم پرست ہیں اور لوگوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ آج اگر ہم اس ناانصافی پر خاموش رہیں تو جس طرح نوجوانوں کے اندر لاوا پک رہا ہے یہ کسی دن پھٹ جائیگا، اس میں ہم سب جل جائینگے۔
خبر کا کوڈ : 830028
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش