0
Sunday 8 Dec 2019 07:44

پارلیمنٹ دن پورے کر رہی ہے، اختر مینگل

پارلیمنٹ دن پورے کر رہی ہے، اختر مینگل
اسلام ٹائمز۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ دن پورے کر رہی ہے، بیساکھیاں چھینی گئیں تو گر جائے گی، اگر آئین توڑنا جرم نہیں تو دستور سے آرٹیکل 6 کو نکال دیں، جب کوئی بے بیساکھیوں پر چلے گا تو وہ کب تک چلے گا جب بیساکھیاں چھینی جائیں گی تو دھڑام سے گر جائے گا اگر کسی کو امید دلائی گئی ہے تو آنے والی تبدیلی عوام کے لئے نہیں کسی اور کے لئے ہو گی، پارلیمنٹ ہے کہاں کیا کوئی قانون سازی ہوئی ہے اجلاس شروع ہوتا ہے تو ہلڑبازی شروع ہو جاتی ہے، بس ضرورت پوری کر رہے ہیں دن پورے کر رہے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت کا ساتھ ہم نے دیا ہے حکومت نے ہمارا ساتھ ابھی تک نہیں دیا۔ وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صدر کے لئے ہم نے ان کو ووٹ دیے ان کے پیچھے ہمارے کچھ مقاصد تھے وہ بلوچستان جس کے مسئلے حل نہیں ہو پا رہے جو تجاویز ہم نے دی تھیں وہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے دی تھیں لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کے نہ یہ حکومت اور نہ ہی پچھلی حکومتیں بلوچستان کے مسائل کا حل چاہتی تھیں۔

اگست 2018ء سے جو ہم نے ان کے ساتھ معاہدے کئے تھے اور ایک ستمبر میں ہوا تھا اس میں جتنا ہونا چاہئے تھا، ڈیڑھ سال کے عرصے میں وہ نہیں ہوا اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل میں اور پیچیدگیاں اور ان کو خراب کرنے کے لئے فیصلے کئے جا رہے ہیں، جو بھی حکومت یہاں پر آئی ہے وہ کہتی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کیسے کیا جائے اور اس کا حل بتائیں ہم نے ان کو حل بتایا اب حل کرنا تو ان کے ہاتھ میں ہے ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو بلوچستان مسائلستان نہ بنتا، بلوچستان کو مسائل سے نکالنے کے بجائے مسائل کی دلدل میں دھکیلا گیا ہے۔ بلوچستان کے مسائل میں سرفہرست گمشدہ افراد کا مسئلہ، سیاسی مسائل میں گوادر کی ڈیوپلپمنٹ اور وہاں پر قانون سازی تھی، افغان مہاجرین کا مسئلہ تھا اور فیڈرل سروسز میں بلوچستان کا جو کوٹہ ہے اور فارن سروسز میں جو بلوچستان کا کوٹہ ہے ایک میٹنگ وہاں پر بلائی تھی مگر میں احتجاجاً خود نہیں آیا اور یہ میں نے ان کو پیغام پہنچایا بھی کے صرف میٹنگوں سے آپ ہمیں ٹرخانا چاہتے ہیں یا ہمیں بہلانا چاہتے ہیں جب تک آپ ٹھوس اقدامات نہیں کرتے کوئی نتیجہ ہمارے سامنے نہیں آتا میں کسی میٹنگ میں نہیں آؤں گا۔

 بی این پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اپوزیشن کو ہمیشہ اچھوت کا درجہ دیا جاتا ہے یہ بات بھی ان کے گوش گزار کی کے ہم آپ کے اتحادی ہیں اور بلوچستان کی حکومت وہ آپ کی اتحادی ہے تو ہمیں مجبور نہ کیا جائے کے ہم اس حد تک پہنچیں کے ہم اگر احتجاج کی راہ اختیار کریں گے تو اس کے چھینٹے آپ کے دامن پر بھی آئیں گے، وفاق میں ہم نے جو حکومت کا ساتھ دیا وہ بلوچستان کے مسائل کی وجہ سے دیا اس میں صوبے کا شاید کوئی اختیار ہی نہیں ہے مگر جو متعلقہ مسائل وفاق کے ساتھ ہیں اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، صوبے میں ہم نے ابھی تک وفاق کے لئے کوئی مسئلہ نہیں بنایا ہے وہاں ہمیں صوبائی حکومت تنگ کر رہی ہے، تنگ کرنے کا وطیرہ ہمیشہ حکومتوں کے پاس ہوتا ہے اپوزیشن کے پاس نہیں ہوتا، ہم نے صوبے میں عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی ہیں مگر لے کر نہیں آئے ہیں یہ تو ایک جمہوری حق ہے مرکز میں بھی اگر کوئی عدم اعتماد لاتا ہے ہاؤس چینج لاتا ہے تو آپ اسے نہیں روک سکتے اگر عدم اعتماد کی تحریک غیرجمہوری ہے تو آپ اس کو اسمبلی رولز اور آئین سے نکال دیں۔

اگر ہم عدم اعتماد لاتے ہیں تو وفاقی حکومت کو منتخب کرنا پڑے گا کے پسندیدہ کون ہے، ان کو بلوچستان عزیز ہے یا جام صاحب عزیز ہیں ان کی اپنی بلوچستان عوامی پارٹی کے وزرا استعفے دے رہے ہیں، پی ٹی آئی جو اس کی اتحادی ہے وہ استعفے دے رہے ہیں، ناراضگی ہی تو ہے شاید وہ ناراضگی ہی اپوزیشن کے لئے ایک عدم اعتماد کی ایک راہ ہموار کرے ہمارے لئے کرسیاں اہمیت کی حامل نہیں، ہمارے لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں منتخب کیا ہے ہمیں اداروں نے منتخب نہیں کیا ہے، تو ہم ان لوگوں کے سامنے جوابداہ ہیں جب ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہ ہوں تو پھر اس حکومت کا ساتھ دینے کا مقصد کیا ہے۔ ہم ان کے دست بازو بنے ہوئے تھے کے یہ انصاف کے نام پر آئے تھے، انصاف مہیا کریں گے ناانصافی کے لئے ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا ہے، اگر اب بھی اپوزیشن کے رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے ہوتے تو ہم اپوزیشن کا ساتھ دیتے حکومت کا نہ دیتے، ہم حکومت کا حصہ نہیں ہیں ہم نے حکومت کو ووٹ دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 831426
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش