0
Monday 9 Dec 2019 14:39

کراچی میں دعا منگی کے اغوا کے پیچھے کالعدم عسکریت پسند گروہ کے ملوث ہونیکا شبہ

کراچی میں دعا منگی کے اغوا کے پیچھے کالعدم عسکریت پسند گروہ کے ملوث ہونیکا شبہ
رپورٹ: ایس ایم عابدی

پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی میں پولیس کو یہ ثبوت ملے ہیں کہ جن لوگوں نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں 20 سالہ قانون کی طالبہ دعا منگی کو اغوا کیا تھا، ان کا لڑکی کی بحفاظت واپسی سے ایک روز قبل گلشن اقبال میں پولیس سے مقابلہ ہوا تھا۔ پولیس کو اس اغوا کے واقعے میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ خیال رہے کہ 30 نومبر کو ڈی ایچ اے کے خیابان بخاری میں 4 مسلح افراد نے دعا منگی کو اس وقت اغوا کیا تھا، جب وہ اپنے دوست کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کر رہی تھیں، اس دوران اغوا کاروں نے حارث سہیل کو فائرنگ کرکے زخمی کر دیا تھا اور وہ فرار ہوگئے تھے۔ دعا منگی کے اغوا کے موقع پر چلائی گئی گولی کے خول کو فرانزک معائنے کے لئے بھیجا گیا تھا، جو نیپا چورنگی سے ملنے والی ان گولیوں کے خول سے مماثلت رکھتے ہیں، جو 3 دسمبر کو پولیس اور مسلح موٹر سائیکل سواروں کے درمیان مقابلے کے دوران چلائی گئی تھیں۔

اس مقابلے کے حوالے سے عزیز بھٹی تھانے کے ایس ایچ او عدیل افضل نے میڈیا ذرائع کو بتایا کہ جمعرات کی رات کو گلشن اقبال میں 4 پولیس اہلکار موٹر سائیکل پر پیٹرولنگ کر رہے تھے کہ انہوں نے تقریباً ساڑھے 11 بجے موٹر سائیکل پر سوار 2 نقاب پوش افراد کو رکنے کا اشارہ کیا، تاہم مشتبہ افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس پر پولیس نے جواب دیا۔ اس دوران مشتبہ افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، لیکن مقابلے میں کانسٹیبل ارسلان کو 5 گولیاں لگیں اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی حالت اب بہتر ہے۔ علاقے کے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ مقابلے کے دوران ایک حملہ آور زخمی بھی ہوا۔

بیلسٹک میچنگ
دوسری جانب ایک پولیس افسر نے میڈیا ذرائع کو بتایا کہ 30 نومبر کو ڈی ایچ اے میں جائے وقوع سے ملنے والی ایک گولی کے خول اور گلشن اقبال مقابلے میں ملنے والی 5 گولیوں کے خول کو فرانزک سائنس لیبارٹری بھیجا تھا۔ ذرائع کے مطابق لیب کے ایک ماہر نے تصدیق کی کہ تمام 6 گولیاں ایک ہی ہتھیار سے فائر کی گئیں، تاہم یہ بھی بتایا کہ تفتیش کاروں کو شبہ تھا کہ مجرمان دعا کی رہائی سے قبل تاوان وصول کرنے کے لئے ممکنہ طور پر گلشن کے قریبی علاقے میں تھے۔ انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ اغوا کے گذشتہ واقعے، جس میں مئی میں ڈیفنس کے ہی علاقے سے اسی طریقے سے ایک بسمہ نامی لڑکی کو اغوا کیا گیا تھا اور اغواکاروں نے تاوان کی رقم جس جگہ وصول کی تھی، وہ جمعرات کو ہونے والے انکاؤنٹر کے مقام سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ سکیورٹی حکام کو یقین ہے کہ دعا سمیت بسمہ کے اغوا میں "پیشہ ور کرمنل گینگ" ملوث تھا۔

دعا منگی کے اہلخانہ کا عدم تعاون
ذرائع کا کہنا تھا کہ اتوار کو مغوی لڑکی اور ان کے اہل خانہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا جاسکا، کیونکہ مبینہ طور پر اہل خانہ، پولیس سے تعاون یا کوئی معلومات شیئر نہیں کر رہے۔ تاہم کالم نگار اعجاز منگی جو لڑکی کے ماموں بھی ہیں، انہوں نے میڈیا کے ایک سیکشن کو بتایا کہ دعا اس حالت میں نہیں کہ وہ کوئی بیان دے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی حالت بہتر ہوگی تو وہ یقینی طور پر پولیس کو بیان دیں گی۔ ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ابھی تک ان کے اہل خانہ سے بیان ریکارڈ کرنے کے لئے رابطہ نہیں کیا۔ ادھر بسمہ اور دعا کے اغوا کے دوران مماثلت کو دہراتے ہوئے پولیس افسر نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ اغواکاروں نے بسمہ کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی، جبکہ یہ رپورٹس بھی ہیں کہ انہوں نے دعا کے ساتھ بھی کوئی بدسلوکی نہیں کی۔

عسکریت پسند عناصر
افسر نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ جس طرح اغواکاروں نے پلان کیا، دونوں لڑکیوں کو اغوا کیا اور پھر ان کے ساتھ سلوک رکھا، ہوسکتا ہے کہ ان کا کالعدم عسکریت پسند گروپ سے تعلق ہو۔ انہوں نے کہا کہ اغواکاروں نے دونوں لڑکیوں کو بظاہر ان کے حلیہ کی وجہ سے اغوا کیا، کیونکہ وہ انہیں فیشن ایبل مانتے تھے، جو اسلامی روایات یا کنونشنز کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اغوا کار جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف تھے، ساتھ ہی انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ اغوا کاروں کا تعلق عسکریت پسند گروپس کے اس گروہ سے ہوسکتا ہے، جو وہ ماڈرن ٹیکنالوجی کا ماہر ہے۔

کیس کا ماضی
یاد رہے کہ شہر قائد کے پوش علاقے ڈیفینس سے اغوا کی گئی قانون کی طالبہ دعا منگی کے کیس میں پولیس کا شروع سے ماننا تھا کہ دعا منگی کو تاوان کے لئے اغوا کیا گیا۔ میڈیا ذرائع کو ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ لڑکی کو جرائم پیشہ گینگ نے اغوا کیا اور بظاہر یہ اغوا برائے تاوان کا کیس لگتا ہے، تاہم اہل خانہ کو تاوان کے حوالے سے کوئی فون موصول نہیں ہوا تھا۔ تفتیش سے منسلک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ جو گاڑی برآمد ہوئی، وہ اغوا کے واقعے میں استعمال ہوئی ہے اور یہ گاڑی 27 نومبر کو فیروز آباد سے چھینی گئی تھی، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ملزمان نے پہلے گاڑی چھینی، جس کے بعد لڑکی کو اغوا کیا۔
خبر کا کوڈ : 831701
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش