0
Friday 13 Dec 2019 13:45

برطانوی انتخابات، ایک جائزہ رپورٹ

برطانوی انتخابات، ایک جائزہ رپورٹ
رپورٹ: ایچ آر سید

برطانیہ کے عام انتخابات میں حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی پارلیمان کی 650 میں سے 358 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ عام انتخابات میں انگلینڈ، ویلز، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ سے 650 نشستوں کیلئے 3 ہزار 322 امیدواروں نے قسمت آزمائی کی۔ برطانوی پارلیمان کی 650 نشستوں میں سے قدامت پسند جماعت کے 368 نشستیں جیتنے کی پیش گوئی کی گئی تھی، جو اس جماعت کی 3 دہائیوں میں سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کامیابی کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن مارگریٹ تھیچر کے بعد سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے رہنما بن گئے۔ حالیہ انتخابات میں 1987ء میں مارگریٹ تھیچر کے دور کے بعد کنزرویٹو کو اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی، جبکہ 1935ء کے بعد لیبر پارٹی کو حاصل ہونے والی نشستوں کی کم ترین تعداد ہے۔

دوسری جانب بائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربن کے لیے یہ انتخابات تباہ کن ثابت ہوئے، جن سے نتائج مکمل ہونے سے قبل ہی استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ جرمی کوربن کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج ان کی جماعت کے لیے انتہائی مایوس کن ہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں لیبر پارٹی کی سربراہی نہیں کریں گے۔ اب تک کے سامنے آنے والے نتائج میں 650 میں سے 600 نشستوں کا نتیجہ سامنے آچکا ہے، جس میں کنزرویٹوز نے 358 نشستیں حاصل کر لیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں 5 سال سے کم عرصے میں یہ تیسرے عام انتخابات ہیں، جو 100 برس میں پہلی مرتبہ دسمبر میں ہوئے۔

اس کے علاوہ بریگزٹ مخالف جماعت لبرل ڈیموکریٹس کو بھی مایوس کا سامنا کرنا پڑا، جن کے بارے میں 13 نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی جبکہ 2 سال قبل ہونے والے انتخابات میں اس جماعت نے 12 نشستیں حاصل کی تھیں۔ حالیہ انتخابات میں بریگزٹ مخالف 2 جماعتوں کے سربراہان کو بھی شکست ہوئی، جن میں لبرل ڈیموکریٹس کی سربراہ جو سونسن، جو اسکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) سے اپنی نشست ہار گئیں۔ دوسری جانب شمالی آئی لینڈ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نیگل ڈوڈس بھی اپنی نشست سے محروم ہوگئے۔ اس کے علاوہ پاکستانی وزیراعظم کی سابق اہلیہ جمائمہ گولڈ اسمتھ کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ بھی اپنی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔

دوسری جانب برطانیہ کے عام انتخابات میں پہلی بار 70 مسلمان امیدواروں نے حصہ لیا، جبکہ گذشتہ انتخابات میں یہ تعداد 47 تھی۔ ان امیدواروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان، بنگلا دیش اور کُرد نسل سے تھا۔ لیبر پارٹی نے ریکارڈ 33 پاکستانی نژاد برطانوی امیدواروں کو ٹکٹیں دیں۔ لبرل ڈیموکریٹ پارٹی نے کبھی بھی کسی پاکستانی نژاد برطانوی کو ٹکٹ نہیں دی، لیکن اس بار دو خواتین حنا بخاری اور حمیرہ ملک اس پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار تھیں۔ برطانیہ کے انتخابات میں ایک خاص بات 15 پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی اپنی نشستوں پر کامیابی ہے۔ برطانیہ میں انتخابات میں کامیاب ہونے والے 15 پاکستانی نژاد برطانویوں میں لیبر پارٹی کی امیدوار ناز شاہ بریڈفورڈ سے ہیں، خالد محمود برمنگھم سے، یاسمین قریشی ساؤتھ بولٹن سے کامیاب ہوئی ہیں۔

لیبر پارٹی کے پاکستانی نژاد امیدوار افضل خان مانچسٹر کے علاقے گورٹن سے کامیاب ہوئے، طاہر علی برمنگھم کے ہال گرین سے، محمد یاسین بریڈ فورڈ شائر سے کامیاب ہوئے ہیں۔ لیبر پارٹی کے امیدوار عمران حسین نے بریڈ فورڈ ایسٹ سے کامیابی حاصل کی، زارا سلطانہ نے کوونٹری ساؤتھ سے، شبانہ محمود نے برمنگھم لیڈی ووڈ سے، ٹوٹنے سے روزینہ علی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے پاکستانی نژاد امیدوار نصرت غنی وئیلڈن سے کامیاب ہوئے، عمران احمد بیڈ فورڈ شائر سے، ساجد جاوید برومس گرو سے، رحمٰن چشتی گلنگھم سے اور ثاقب بھٹی میریڈن سے کامیاب ہوئے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ برطانوی شہریوں نے کنزویٹو جماعت کی حکومت کو بریگزٹ اور ملک کو متحد کرنے کے لیے "نیا اور طاقتور مینڈیٹ دیا ہے۔" اس ضمن میں کیے گئے ایگزٹ پول اور ابتدائی نتائج یہ بات ظاہر کرتے تھے کہ کنزرویٹو پارٹی جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے قریب ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بورس جانسن کی مہم میں جو پیغام واضح طور پر دیا گیا، وہ بریگزٹ کے عمل کو مکمل کرنا تھا جبکہ لیبر پارٹی نے پبلک سروس اور نیشنل ہیلتھ سروس پر اضافی رقم خرچ کرنے کے وعدے پر اپنی مہم مرکوز رکھی۔
خبر کا کوڈ : 832454
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش