0
Saturday 14 Dec 2019 13:40
آرمی چیف کی توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں سقم ہے

وقت آگیا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف، فوج و عدلیہ بیٹھ کر اپنی حدود کا تعین کریں، فواد چوہدری

وقت آگیا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف، فوج و عدلیہ بیٹھ کر اپنی حدود کا تعین کریں، فواد چوہدری
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے وفاقی وزیر فواد حسین چوہدری کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہے۔ وفاقی کابینہ کو تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے، جس کے بعد اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی قانونی قابلیت پر اگرچہ سوال اٹھانے کی بہت کم گنجائش ہے، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے فیصلے میں بہت سے سقم اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آرٹیکل 243 کو تو بلکل ختم ہی کر دیتا ہے۔ سپریم کورٹ پارلیمان کو نہیں کہہ سکتی کہ آپ یہ قانون سازی کریں اور وہ قانون سازی نہ کی جائے یا یہ کہ اس مدت کا آئین میں تعین کریں۔

فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کا آئینی حوالہ دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ 1956ء اور 1962ء کے آئین میں فوج کے سربراہ کی مدت کا تعین کیا گیا تھا۔ تاہم 1973ء کے آئین میں پارلیمنٹ نے پوری بحث کے بعد مدت کا تعین ختم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 1973ء کا آئین بنانے والی پارلیمنٹ چاہتی تھی کہ وزیر اعظم بااختیار ہو اور وہ جب چاہیں آرمی چیف کو ہٹا سکیں۔ فواد چوہدری کے مطابق، اگر آپ مدت کا تعین آئین میں رکھیں گے تو اسے ہٹائیں گے کیسے؟ لہذا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں سقم موجود ہے اور قانونی طور پر اس سقم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سوال پر کہ کیا حکومت سپریم کورٹ میں اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کرے گی؟ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میری رائے تو یہی ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے وفاقی کابینہ میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی حکومت کی حکمت عملی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے جس کے بعد اس بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حکومتی فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی تھی اور حکومت کی جانب سے کی گئی تین سال کی توسیع کے نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے اس حوالے سے چھ ماہ میں قانون سازی کا حکم دیا تھا۔ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی پر فواد چوہدری نے کہا کہ سب جماعتیں سمجھتی ہیں کہ خطے کی صورت حال کے پیش نظر فوج کے سربراہ کی مدت میں توسیع ایک مناسب اقدام ہے۔ اس پر کوئی ابہام نہیں پایا جاتا ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک کے اداروں کے درمیاں اختیارات اور کردار کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف، فوج و عدلیہ بیٹھ کر اپنی حدود کا تعین کریں۔ ان کے بقول، بصورت دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ آرٹیکل 62-63 کے تحت تمام اراکین پارلیمنٹ کا احتساب کرتی ہے، لیکن خود پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں احتساب کے لیے آنے کو تیار نہیں ہے۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ فوج بھی چاہتی ہے کہ ان کے احتساب کے عمل کو نہ چھیڑا جائے۔ ذرائع ابلاغ بھی یہی چاہتا ہے کہ اس پر کوئی قدغن نہ ہو اور اسے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اس سارے معاملے میں سب سے بڑا ادارہ یعنی پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ جب تک پارلیمان کو اعلی اور معتبر ادارہ نہیں بنایا جائے گا پاکستان آگے نہیں جا سکتا۔
خبر کا کوڈ : 832677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش