0
Monday 16 Dec 2019 19:08

بنگال میں متنازع شہریت قانون میری لاش پر سے گزر کر ہی لاگو ہوگا، ممتا بینرجی

بنگال میں متنازع شہریت قانون میری لاش پر سے گزر کر ہی لاگو ہوگا، ممتا بینرجی
اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مارچ کے دوران کہا ہے کہ ان کی ریاست میں یہ قانون ان کی لاش پر سے گزر کر ہی لاگو ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کولکتہ میں احتجاجی مارچ کے دوران ممتا بینرجی نے وفاق کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی حکومت میں ہمت ہے تو ان کی حکومت ختم کردے، لیکن ان کی ریاست میں یہ قانون ان کی لاش پر سے گزر کر ہی لاگو ہوگا۔ احتجاجی مارچ کے دوران ممتا بینرجی کی جماعت کے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنان نے متنازع قانون کے خلاف پوسٹرز اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ نے مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں، ریاست میں شہریت قانون اور این آر سی پر عملدرآمد نہیں ہونے دوں گی، آپ چاہیں تو میری حکومت ختم کر دیں یا مجھے جیل میں ڈال دیں، لیکن میں اس کالے قانون پر کبھی عملدرآمد نہیں کروں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس قانون کے خاتمے تک جمہوری طریقے سے احتجاج جاری رکھیں گے، اگر وہ بنگال میں اس قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں تو انہیں یہ میری لاش پر سے گزر کر کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوچا تھا کہ ممتا تنہا ہے، لیکن اب ہمارے ساتھ بہت لوگ ہیں، اگر آپ کا مقصد صحیح ہو تو لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ ممتا بینرجی نے کہا کہ یہ کوئی مذہب کی بنیاد پر لڑائی نہیں ہے، بلکہ جو ٹھیک ہے، اس کے لیے لڑائی ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بنگال کے احتجاجی مارچ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ریاستی گورنر جَگدیپ ڈھنکھار نے کہا کہ میرے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزراء نے شہریت قانون کے خلاف ریلی کی قیادت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ممتا بینرجی سے کہا ہے کہ وہ اس غیر آئینی اور اشتعال انگیز عمل کو ترک کردیں۔ بنگال کی وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان تعلقات پہلے ہی سرد مہری کا شکار ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت کے متنازع بل کے خلاف شمال مشرقی ریاستوں میں کئی روز سے احتجاج جاری ہے، جس کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی ہے، جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بھی بدستور نافذ ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں اس بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ متنازع قانون کے خلاف ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہو رہے ہیں، جہاں سکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہیں، جو مسلسل سڑکوں پر گشت کر رہی ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟
شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955ء کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے منتخب کیٹیگریز کے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016ء کے تحت شہریت سے متعلق 1955ء میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔ اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014ء سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971ء میں آسام آئے تھے اور یہ 1985ء کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ یاد رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے، کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 833136
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش