2
Wednesday 1 Jan 2020 01:05

2019ء میں گلگت بلتستان کے نشیب و فراز، امیدیں بنتی ٹوٹتی رہیں

2019ء میں گلگت بلتستان کے نشیب و فراز، امیدیں بنتی ٹوٹتی رہیں
رپورٹ: لیاقت علی انجم

2019ء تلخ و شیریں یادوں، کئی حادثات و واقعات کے ساتھ ختم ہوا۔ نیا سال نئی امیدوں کے ساتھ شروع ہوچکا ہے، تاہم 2019ء میں گلگت بلتستان کیلئے آئینی حقوق کا بہتر سالہ پرانا خواب پورا ہوتے ہوتے پھر سے ادھورا رہ گیا۔ 17 جنوری 2019ء کو سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بنیج نے جی بی کے آئینی حقوق پر تاریخی فیصلہ دیا۔ ابتدائی ایام میں گلگت بلتستان کے عوام نے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا، لیکن جوں جوں فیصلے کی باریکیاں سمجھ میں آنے لگیں تو رائے عامہ تبدیل ہونا شروع ہوئی، کیونکہ یہ فیصلہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سینیئر ترین ججز نے دیا تھا، جس میں قانونی اور آئینی پہلووں کی باریکیوں کو جلدی سے سمجھ جانا عام لوگوں کیلئے خاصا مشکل کام تھا، بعد میں میڈیا کے ذریعے فیصلے کے مندرجات کی تشریح ہونے لگی تو مجموعی بیانیہ تبدیل ہونا شروع ہوا۔ 2019ء کے ابتداء میں ہی آئینی اصلاحات پر ایک اور کمیٹی بن گئی، یکم جنوری کو وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور نے کہا کہ آرڈر 2018ء سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا، ہماری حکومت سب کیلئے قابل قبول سیٹ اپ دے گی۔ 3 جنوری کو جی بی کابینہ میں ہم خیال گروپ سامنے آگیا، جنہوں نے آئینی حقوق کیلئے فیصلہ کن تحریک چلانے کا اعلان کیا، اس گروپ کی قیادت ڈاکٹر محمد اقبال، ثوبیہ مقدم اور میجر امین نے کی۔

کشمیر اسمبلی میں جی بی کے حق میں قرارداد
12 جنوری کو اہم ترین پیشرفت اس وقت سامنے آئی، جب پہلی مرتبہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے گلگت بلتستان کیلئے بھی کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطالبہ کیا۔ کشمیر اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ جی بی کے عوام کو وہ حقوق نہیں ملے، جو ان کا پیدائشی اور قانونی حق ہے، آرڈر سے عوام مطمئن نہیں، آزاد کشمیر طرز کا نظام دینے کیلئے تمام تر ضروری اقدامات کیے جائیں، قرارداد کی تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی۔ 17 جنوری کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے روز ہی جی بی کے آئینی حقوق پر فیصلہ سنا دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ وفاق جی بی کو بنیادی حقوق دینے کا پابند ہے، گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، سپریم کورٹ نے فیصلے میں اپنا دائرہ کار بھی جی بی تک بڑھا دیا، عبوری صوبے کا آپشن کھلا چھوڑا گیا، گلگت بلتستان کا کوئی بھی قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اپیلیٹ کورٹ کا اختیار صرف جی بی تک محدود کر دیا گیا۔ 20 جنوری 2019ء کو اسلام آباد میں جی بی کی آل پارٹیز کانفرنس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور متنازعہ حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

21 جنوری کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے وزراء کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے حقوق چھین لیے، بدامنی کا خطرہ ہے۔ 31 جنوری کو وفاقی وزیر امور کشمیر نے اسلامی تحریک جی بی کے صوبائی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں اعلان کیا کہ آئینی حقوق کا معاملہ پارلیمنٹ میں رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی حقوق کا معاملہ ایک ہفتے کے اندر پارلیمنٹ میں پیش ہوگا، تاہم یہ ہفتہ ایک سال بعد بھی نہیں آیا اور معاملہ پارلیمنٹ میں پیش نہ ہوسکا، تاہم وفاقی حکومت ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچ گئی اور آرڈر 2019ء پر عملدرآمد میں مزید مہلت طلب کرتے ہوئے کئی ترامیم کی اجازت بھی طلب کی۔ مئی میں وفاقی حکومت نے آرڈر 2019ء سے متعلق ایکٹ کا مسودہ سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہوئے 15 ترامیم بھی تجویر کیں۔ مجوزہ ترامیم میں جی بی کو سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ختم کرنے، جوڈیشل کمیشن میں بھی ردو بدل کرنے کا مطالبہ کیا گیا، مجوزہ ایکٹ میں آرڈر میں ترامیم کیلئے سپریم کورٹ کی منظوری کی شرط بھی ختم کی گئی، جبکہ اسمبلی کا نام تبدیل کرتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی رکھ دیا گیا۔

جی بی چیف کورٹ بار نے مسودہ ایکٹ مسترد کرتے ہوئے عدلیہ پر کاری ضرب قرار دیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں جی بی کے سینیئر وکلاء ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اب یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے ٹیبل پر موجود ہے۔ 2019ء جوڈیشل آرڈر، سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصروں اور آئینی پیٹیشن پر سماعتوں میں گزر گیا۔ لیکن کوئی قابل ذکر پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ نیا سال بھی تہتر سالہ محرومیوں کے تسلسل اور لاحاصل امیدوں کے ساتھ ختم ہوگا یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوں گے؟ صورتحال اب بھی واضح نہیں ہے۔

آئینی حقوق کیلئے فیصلہ کن تحریک چلانے کا اعلان خواب ہی رہا
 گذشتہ سال یعنی 2019ء میں بعض حکومتی اراکین نے بنیادی آئینی حقوق کیلئے پانچ فروری سے فیصلہ کن تحریک کا اعلان کیا، لیکن یہ تحریک کہیں گم ہو کر رہ گئی۔ اسلام آباد میں صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال، فدا خان، غلام حسین اور میجر امین نے ایک مشترکہ بیان میں انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ سکولوں اور کالجوں کے طلباء کو یکجہتی کشمیر ریلی میں ذبردستی لے جانے سے باز رہے، بیان میں یوم یکجہتی کشمیر کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پانچ فروری کو حکومتی وزراء نے اسلام آباد میں ہنگامہ خیز پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اس پریس کانفرنس کے بعد سے تصویر کا رخ تبدیل ہونا شروع ہوا اور آخر میں حکومتی اراکین کی یہ نامعلوم تحریک 2019ء کے پورے دورانیے میں کہیں گم ہو کر رہ گئی۔

حفیظ الرحمن کا یوٹرن
سترہ جنوری کے سپریم کورٹ کے فیصلے بعد 22 جنوری کو وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن کھل کر میدان میں آگئے اور فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے نظرثانی اپیل دائر کرنے کا اعلان کر دیا، اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حفیظ الرحمن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حقوق چھین لیے، جس کی وجہ سے خطے میں بدامنی کا خطرہ ہے۔ حفیظ الرحمن نے یہ بھی کہا تھا کہ حقوق کے معاملے کو سیاسی طور پر حل کیا جا سکتا تھا، لیکن بعض ناسمجھ افراد عدالت لے گئے اور سپریم کورٹ نے حقوق دینے کی بجائے پہلے سے موجود حقوق بھی چھین لیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے آٹھ ماہ تک جی بی کے حکومتی عہدیداران اس کیخلاف بولتے رہے، لیکن 9 دسمبر 2019ء کو جی بی کابینہ کے اجلاس میں حکومت نے اچانک یوٹرن لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کر ڈالا۔ گلگت بلتستان کابینہ کے 20 ویں اجلاس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق آرڈر 2019ء پر فوری عملدرآمد اور سپریم اپیلیٹ کورٹ جی بی میں جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججز کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔

کابینہ سے اکلوتی خاتون وزیر فارغ
 گذشتہ سال گلگت بلتستان حکومت میں اکلوتی خاتون وزیر کو فارغ کیا گیا۔ معاملہ اس وقت بگڑا، جب 6 جنوری 2019ء کو سابق صوبائی وزیر ثوبیہ مقدم نے چلاس میں ایک خطاب کے دوران اپنی ہی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تین سال میں صوبائی حکومت عوام خصوصاً دیامر کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی، جس کی وجہ سے ہم شرمندہ ہیں۔ ثوبیہ کے اس خطاب کے بعد وزیراعلیٰ نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا، جس کے جواب میں صوبائی وزیر نے پہلے سے بھی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ نوٹس سے نہیں ڈرتیں، نہ ہی وزارت جانے کی پرواہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے دیامر کیلئے کئی اعلانات کیے، لیکن ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔

ثوبیہ کے ساتھ دیامر سے تعلق رکھنے والے وزراء حاجی جانباز خان اور حیدر خان بھی مل گئے۔ اسی دوران ہم خیال گروپ بھی میدان میں آچکا تھا، جس میں چار وزراء اور دو پارلیمانی سیکرٹریز شامل تھے۔ گلگت بلتستان کی سیاسی فضا اس وقت مزید گرم ہونا شروع ہوئی، جب وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنائی جانے لگی۔ 27 اپریل 2019ء کو وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے اپنی کابینہ کی اکلوتی خاتون وزیر کو فارغ کر دیا اور یہ موقف اپنایا کہ صوبائی وزیر کو کابینہ کے اجلاسوں میں مسلسل غیر حاضری، بغیر منظوری کے اندرون و بیرون ملک دوروں اور سرکاری امور کی انجام دہی میں عدم توجہی پر کابینہ سے فارغ کیا گیا ہے۔

حکمران جماعت میں ہم خیال گروپ سامنے آنے کے بعد ہلچل
2019ء میں ایک ہلچل اس وقت پیدا ہوئی، جب حکمران جماعت میں ہم خیال گروپ سامنے آگیا۔ ہم خیالوں میں صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال، جانباز خان، ڈاکٹر اقبال، میجر امین، حیدر خان اور دیگر کئی اہم ارکان شامل تھے۔ ہم خیال گروپ نے اسلام آباد کو بیس کیمپ بنا لیا اور روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہوتے رہے۔ دو فروری کو ناراض ارکان نے بغیر مشاورت پریس کانفرنس بھی کر ڈالی، ظاہری طور پر انہوں نے آئینی حقوق کو بنیادی نکتہ بنا لیا، تاہم وزراء کو فیصلے میں اعتماد نہ لینے اور دیوار سے لگانے پر شدید تحفظات تھے اور وہ ان ہاؤس تبدیلی کی کوششیں کرنے لگے۔ ناراض گروپ نے وزیراعلیٰ کی نیندیں حرام کر دیں، جس کے بعد انہیں منانے کی درپردہ کوششیں تیز ہوگئیں۔ ہم خیال بعد میں ہم خیال نہ رہے، تاہم اس کا سارا نزلہ کابینہ کی واحد خاتون وزیر ثوبیہ مقدم پر گرا اور وہ وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

2020ء گلگت بلتستان میں عام انتخابات کا سال
نیا سال جی بی مین عام انتخابات کا سال ہے۔ موجودہ نون لیگی حکومت کی مدت جون میں ختم ہو رہی ہے، اس سے تین یا چار ماہ پہلے نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جی بی میں انتخابات اور نگران حکومت کے قیام کیلئے کوئی قانون ہی موجود نہیں۔ آرڈر 2019ء کا معاملہ پھر سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہونے سے صورتحال مزید پیچیدہ دکھائی دیتی ہے، تاہم ذرائع کے مطابق جی بی کے عام انتخابات ستمبر میں کرانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ جون تک آرڈر میں ترمیم کرکے نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ستمبر میں الیکشن ہوں گے۔ یاد رہے کہ جی بی میں 8 جون 2015ء کے عام انتخابات میں نون لیگ دو تہائی اکثریت سے جیت گئی تھی، جس کے نتیجے میں نون لیگ نے تنہا حکومت بنائی تھی۔
خبر کا کوڈ : 835830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش