0
Thursday 7 Jul 2011 23:13

وکلاء کے مسائل حل کئے بغیر عدالتی اصلاحات کے نتائج نہیں نکل سکتے، احسان علی ایڈووکیٹ

وکلاء کے مسائل حل کئے بغیر عدالتی اصلاحات کے نتائج نہیں نکل سکتے، احسان علی ایڈووکیٹ
گلگت:اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان میں وکلاء برادری کے مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کئے بغیر جوڈیشری میں اصلاحات اور بہتری نہیں لائی جاسکتی ہے، گلگت بلتستان میں وکلاء برادری کو درپیش مسائل کے حل اور عدالتوں کو ہر لحاظ سے آزاد اور خودمختار بنا کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو اپنی سابقہ روایتی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان کے سینئر و ممتاز قانون دان اور گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈووکیٹ احسان علی نے میڈیا سے خصوصی بات چیت کے دوران کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ جب تک وکلاء برادری کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا جاتا تب تک جوڈیشری میں اصلاحات کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
 گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار نے وکلاء کے مسائل اور جوڈیشری کے نظام میں بہتری لانے کیلئے پہلے بھی کئی مطالبات پیش کئے تھے، جن پر عمل درآمد نہیں ہوا، اب موجودہ حکومت کو ہر قیمت پر ہمارے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عدالتی نظام میں بہتری لانے اور وکلاء کے مسائل دیرپا اور مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان میں سول ججوں کی تعداد بڑھا کر پانچ کر دی جائے، بینکنگ کورٹ، نیب کورٹ اور دیگر خصوصی عدالتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ ججز مقرر کئے جائیں، چیف کورٹ گلگت بلتستان کو مکمل طور پر ہائی کورٹ کا درجہ دیا جائے اور ہائی کورٹ کو مکمل طور پر آئینی تحفظ فراہم کیا جائے، سپریم ایپلیٹ کورٹ میں کنٹریکٹ بنیادوں پر ججوں کی تقرری انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے، اس لئے کنٹریکٹ نظام کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے، سپریم ایپلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں بند کی جائیں، سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں کی وجہ سے عدالتوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور عوام کا اعتماد عدلیہ سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
عدالتوں میں کورٹ فیس ختم کی جائے اور سول کورٹ سے لے کر سپریم ایپلیٹ کورٹ تک تمام مقدمات کو تین ماہ کے اندر نمٹانے کا پابند کیا جائے، عدالتوں کے باہر سائلین کیلئے انتظار گاہ اور ہاتھ روم کا فوری طور پر بندوبست کیا جائے، ججوں کا احتساب اور ان کی کارکردگی چیک کرنے کیلئے چیف جج سپریم اپیلیٹ کورٹ کی سربراہی میں دسٹرکٹ بار ہائی کورٹ بار اور سپریم ایپلیٹ کورٹ بار کے نمائندوں پر مشتمل ایک احتساب کمیشن قائم کیا جائے، وکلاء کی پریکٹس کی جگہوں پر انہیں رہائشی مشکلات کے پیش نظر رہائشی پلاٹس فراہم کیا جائے۔ احسان علی ایڈوکیٹ نے مزید کہا کہ مختلف سرکاری محکموں، نیم سرکاری خودمختار اداروں، مالیاتی اداروں اور غیر سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ان اداروں میں لیگل ایڈوائزرز اور اسسٹنٹ لیگل ایڈوائزرز کی تقرریاں عمل میں لائی جائیں۔

خبر کا کوڈ : 83640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش