0
Saturday 9 Jul 2011 19:20

کراچی میں دہشت گرد بھاری ہتھیار استعمال کرنے لگے، 4 دنوں میں 80 ارب کا معاشی نقصان

کراچی میں دہشت گرد بھاری ہتھیار استعمال کرنے لگے، 4 دنوں میں  80 ارب کا معاشی نقصان
لاہور:اسلام ٹائمز۔ کراچی میں 4 روز کے اندر 104 لاشیں گرنے اور 80 ارب روپے کے معاشی نقصان کے بعد تشدد کی حالیہ لہر نے شہر کے نئے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،جبکہ متحارب گروپس کی جانب سے بھاری اسلحہ کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ شہر کے متاثرہ ترین علاقے قصبہ کالونی اور اورنگی ٹائون کے بعد شہر پر قبضے کی جنگ نے شاہ فیصل کالونی، لائنزایریا، بلدیہ ٹائون، لیاری، حسن اسکوائر، پی آئی بی کالونی، ناظم آباد کا رخ کر لیا ہے۔ 400 سے زائد رینجرز اہلکاروں اور پولیس کمانڈوز کی کارروائی کے باوجود شہر میں متحارب گروہوں کی جانب سے راکٹ لانچر، لائٹ مشین گنز اور ہینڈ گرینیڈ کے بجائے شارٹ مشین گن یا کلاشنکوف کے ذریعے فائر ہونے والے ایوون گرینیڈ استعمال کئے جا رہے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن سے پہلے پولیس حکام بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ 2 روز میں جمعرات اور جمعہ کے 2 دنوں میں 235 افراد کو اسلحہ سمیت حراست میں لیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود خون کی ہولی پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ شرجیل میمن کا یہ بھی تسلیم کرنا ہے کہ حالات کی خرابی نے قصبہ کالونی سے نکل کر شہر کے دیگر علاقوں کا رخ کر لیا ہے۔
بلدیہ ٹائون اور بھیم پورہ کے متاثرہ علاقوں میں کی گئی تخریبی کارروائیوں کے بعد جائے حادثہ سے دستیاب شواہد کے مطابق اختلافات کے تحت شہر پر قبضہ کی جنگ نے اب پستول اور کلاشنکوف کے بعد بھاری ہتھیاروں کو اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ دونوں جانب سے راکٹ لانچرز، لائٹ مشین گنز اور مخصوص قسم کے ایوون گرینیڈ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہاتھ سے پھینکے جانے کے بجائے شارٹ مشین گن یا کلاشنکوف پر لگا کر فائر کئے جانے والے ان گرنیڈز کے دور تک مار کرنے کی وجہ سے دہشت گرد انہیں آسانی سے استعمال کر رہے ہیں۔
پولیس سے وابستہ ایک اعلٰی سطحی ذریعہ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بم ڈسپوزل سکواڈ کی رپورٹس کے بعد یہ کنفرم ہو گیا ہے کہ ایون گرنیڈز جیسے مہلک ہتھیار تخریب کاروں کے پاس موجود ہیں۔ تاہم مذکورہ ذریعہ ان ہتھیاروں کی شہر میں موجودگی کیسے ممکن ہوئی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔ جمعہ کو جہاں فسادات کے چوتھے روز 30 کےقریب انسانی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے، وہیں بڑی تعداد میں متاثرہ علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی بھی کی ہے۔ غذائی قلت، طبی امداد نہ ملنے اور مسلسل فائرنگ کی وجہ سے بے چینی کا شکار رہنے والے مذکورہ فیملیز کا کہنا ہے کہ حالیہ فسادات میں انہوں نے ہتھیاروں کی ایسی آوازیں سنی ہیں جواب تک ان کے لئے اجنبی ہیں۔
مرکز اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر شاہی سید نے بھی اپنی نیوز کانفرنس میں کراچی کو لائسنس اور غیرلائسنس ہر قسم کے اسلحہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے کراچی میں جاری درندگی کے چوتھے روز طلب کئے گئے اجلاس میں سندھ کے نئے وزیر داخلہ بننے والے منظور وسان نے بھی یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی وجوہات کا پتہ چلانا ہو گا۔
وزیراعظم نے بھی جمعہ کو اپنی تقریر اور پیغام میں کراچی کے رہنے والوں سے امن وامان کو بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے ایسے میں بھاری ہتھیاروں کے آزادنہ استعمال کو مبصرین شہر میں “جنگل کے قانون” سے تعبیر کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے گوگل اور سیٹلائٹ تصویروں کی موجودگی کا اعلان کرتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن کرنے اور ایف سی کے 1 ہزار اہلکاروں کو لا کر کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا جو لائٹ نہ ہونے کے سبب نہیں کی جا سکی تھی جس کے بعد متعدد متاثرہ علاقوں میں شہری اب بھی گھروں میں محصور ہیں۔ متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے والوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے کمانڈوز اور رینجرز اہلکار بیرونی سڑکوں پر موجود رہنے پر اکتفا کرتے ہیں جب کہ مسلح دہشت گرد گلیوں میں پناہ گاہیں بنا کر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
100 ہلاکتوں اور 200 سے زائد افراد کے زخمی ہونے سے پیدا شدہ صورتحال نے کراچی میں کاروباری سرگرمیوں کی صورتحال کو مخدوش کر دیا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ قرار دیئے جانے والے شہر میں یومیہ 20 ارب روپےکے تناسب سے اب تک 80 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی ماہرین کےمطابق بندرگاہ پر جاری معاشی سرگرمیاں رک جانے، کاروباری مراکز کو بزور قوت بند کئے جانے اور روزمرہ مزدوری کےختم ہونے کے بعد ہونے والے معاشی نقصان کا یہ کم سے کم تخمینہ ہے اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 83920
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش