0
Thursday 30 Jan 2020 21:40

یورپی پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت قانون پر اہم تقاریر

یورپی پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت قانون پر اہم تقاریر
اسلام ٹائمز۔ یورپین پارلیمنٹ میں بظاہر بھارت کے متنازع شہریت قانون کے حوالے سے آنے والی قرارداد پر ووٹنگ مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے، لیکن یہاں اس موضوع پر ہونے والی تقاریر نہ صرف تاریخ کا حصہ رہیں گی بلکہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کے اس ہاؤس سے چلے جانے کے بعد بھی اس کے اثرات سے بھارت کا چہرہ متاثر ہوتا رہے گا۔ پارلیمنٹ میں بہت سی اہم تقاریر میں سے سب سے اہم تقریر اس قرارداد کے محرک شفق محمد نے کی۔ میرپور آزاد کشمیر میں اپنی ابتدائی زندگی گزارنے والے شفق نے اس نمائندے کو اس قرارداد کے حوالے سے مسلسل باخبر رکھا، شفق یہ قرارداد جنوری کے آغاز میں لانا چاہتے تھے، لیکن انہیں کہا گیا کہ یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل بھارت جا رہے ہیں۔ جب وہ واپس آجائیں تو پھر یہ قرارداد پیش کی جائے۔ لیکن مختلف گروہوں کے ساتھ گفتگو کے بعد جب یہ قرارداد بحث کیلئے پیش کی گئی تو گذشتہ شب 199 ارکان کے مقابلے میں 271 ارکان نے مارچ تک ووٹنگ کو ملتوی کر دیا، لیکن اس موضوع پر پارلیمنٹ میں مختلف ارکان نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
یورپی پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت قانون پر اہم تقاریر
 
 
 
 
اس پس منظر میں اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ کا ایک سبق یا رکھنا چاہیئے، ایک سبق جو اس ہاؤس کیلئے تکلیف دہ ہے، کیونکہ اسی سبق کی وجہ سے یہ پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی۔ شفق ایم ای پی نے کہا کہ ہم ایک ایسا گروہ ہیں، جو دوسروں کو اسٹیٹ لیس اور ریاست سے بے دخل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ میں قرارداد پر گفتگو میں اس لئے شامل تھا کہ ہم ایسا ہونے کو روک سکتے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ یہ قرارداد پیش ہو، اس کیلئے میں دوسروں کے ساتھ بیٹھا۔ لیکن خدانخواستہ اگر اسٹیٹ لیس اور ریاست سے بے دخل لوگوں کا ایک نیا گروپ وجود میں آیا تو میں وہاں جاؤں گا اور لوگوں کو بتاؤں گا کہ میں نے ہر وہ کوشش کی، جس کے ذریعے اس سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن اونچی کرسیوں پر کچھ ایسے لوگ بیٹھے تھے، جن کیلئے تجارت اور کاروبار انسانی حقوق سے زیادہ بڑا تھا۔ (کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے ) انہوں نے کہا کہ یہ عمل صرف آپ نے اس لئے کیا ہے۔

اسی دوران ایک ممبر نے نکتہ اعتراض پر سوال کیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ بھارت میں قانون سازی کے اس عمل سے کتنے لوگ اسٹیٹ لیس ہو جائیں گے؟ شفق محمد نے جواب دیا کہ ابھی یہ قانون صرف آسام میں لاگو ہوا تھا تو وہاں پر 19 لاکھ لوگ سامنے آئے۔ جن کیلئے ڈیٹینشن سینٹر بن چکے ہیں۔ شفق محمد ایم ای پی نے کہا کہ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تاریخ میں اسی طرح کا ایک قانون نیورمبرگ جرمنی میں یہودیوں کے خلاف بھی بنایا گیا تھا۔ ایک ایکٹ کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قانونی طور پر جائز ہے۔ میں اس قرارداد کو اپنی دراز میں محفوظ رکھوں گا اور مجبور لوگوں کے سامنے ان قوتوں اور لوگوں کا نام لوں گا، جنہوں نے اس قرارداد پر ووٹنگ کو ہونے سے روکا۔ جان ہاورتھ ایم ای پی نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہ امتیاز پر مبنی قانون ہے، جو ایک خاص مذہب کو نشانہ بناتا ہے۔ اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو تنہا کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے پس منظر میں بھارت کے سیکولر ہونے کی وضاحت سامنے آنی چاہیئے۔

جان ہاورتھ نے مودی حکومت پر واضح الفاظ میں الزام عائد کیا کہ یہ ہندو نیشنل ازم کی حکومت ہے، ایک پاپولسٹ حکومت جیسی دنیا میں اور بھی نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں یورپین پارلیمنٹ سے یہ واضح پیغام جانا چاہیئے کہ کشمیر ہو یا شہریت کا قانون، انسانی حقوق کا مکمل احترام ہونا چاہیئے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ہمارے تعلقات مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مائیکل گاہلر ایم ای پی نے کہا کہ بھارت کے شہریت کے قانون کے بارے میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ یہ قانون بہت سے لوگوں کے لیے مشکل ہے اور وہ اس سے جڑی قانونی ضروریات کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کا یہ فرض ہے کہ وہ اس معاملے کو قانون کے مطابق دیکھے۔ پارلیمنٹ میں گرینز سے تعلق رکھنے والے اسکاٹ اینسلی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ ہم بھارت کے اسلامو فوبیک سٹیزن شپ ایکٹ پر ووٹنگ ملتوی کر رہے ہیں۔ ای پی پی نے اس قرارداد پر دستخط کیے اور آج انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں بھارت کی سیاسی لابی کا بہت دباؤ تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کی حفاظت کی بجائے ایک اور بھارت ای یو ٹریڈ سمٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے 200 ملین بھارتی مسلمانوں کو جو کہ یورپ کی آبادی کا پچاس فیصد بنتے ہیں، کے ساتھ کھڑا ہونے کو مسترد کر دیا ہے۔ ہم نے انہیں بے وطنی، تشدد سہنے اور باہر نکال دیئے جانے کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسٹیٹ آف آسام میں ایک اعشاریہ نو ملین لوگ پہلے ہی مودی حکومت کی اس تحریک کا شکار ہوچکے ہیں، یہ ان کیلئے شرم کا مقام ہے۔ انہوں نے بھی یورپین کمشنر ہیلینا ڈالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ "اچھے لوگ وہ ہوتے ہیں، جو کچھ نہیں کرتے۔" اپنی تقریر کے اختتام پر انہوں نے یورپین یونین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ آپ پر دباؤ ڈال سکے، بلکہ ہمیں انسانی حقوق کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں عمل کرنا ہوگا اور الفاظ کو عمل کا ساتھ دینا چاہیئے۔

فابیو مازیو کیستالدو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں پاس کردہ سی اے اے قانون امتیازی ہے۔ یہ کچھ لوگوں کو یہ حق دیتا ہے اور کچھ کو نہیں۔ اگر یہ بات درست نہیں تو یہ کیوں میانمار کے روہنگیا، بنگلہ دیش کے بہاریوں اور پاکستان کے احمدیوں اور دیگر کو اس میں شامل نہیں کرتا۔ فل بینین ایم ای پی نے کہا کہ یہ شہریت کا قانون مسلمانوں کو تحفظ نہیں دیتا۔ یہ قانون اپنے اندر امتیازی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس سے لوگ متاثر ہونگے۔ اسی بحث کے دوران بھارت کے ہمدرد یا اس سے آبائی طور پر تعلق رکھنے والے ممبران نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور اٹھائے جانے والے خدشات کی نفی کی۔ بحث کے آغاز سے قبل یورپین کمشنر ہیلینا ڈالی نے یورپین خارجہ امور کے سربراہ کی جانب سے اپنے بیان میں یورپ اور بھارت کے درمیان تعلقات اور گرمجوشی کو سراہا۔ انہوں نے بتایا کہ 13 مارچ کو بھارتی وزیراعظم مودی برسلز کا دورہ کر رہے ہیں، جبکہ 16 اور 17 جنوری کو یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل نے بھی بھارت کا دورہ کیا تھا، جس میں تمام موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔ یہ معاملہ بھارت کی سپریم کورٹ میں ہے اس کا انتظار کرنا چاہیئے۔

یہاں قارئین کیلئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ 31 جنوری کے بعد سے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے یورپین پارلیمنٹ کے ارکان اس کا حصہ نہیں ہونگے۔ اس لحاظ سے کشمیر سمیت دیگر مسلم معاملات پر بھرپور تائیدی گفتگو کے لئے تعلقات کی بہت اعلیٰ سطح درکار ہوگی اور مارچ میں کوئی شفق محمد، جان ہاورتھ، فل بینین، اسکاٹ اینسلی اور دیگر دستیاب نہیں ہونگے۔ اس موضوع پر ہونے والی اس طرح کی آخری بحث کا پیغام یہ بھی ہے کہ روٹی اور تجارت کے بالمقابل اخلاقی قدروں، انسانی حقوق اور شرف انسانیت کی بقا کی حدود دن بدن سکڑتی جائے گی۔ ان پر اصرار کرنے کیلئے نہ صرف خود معاش اور جدت کی ان بلندیوں کو چھونا ہوگا، جو دوسروں کو قابل رشک بناتی ہیں بلکہ ان تمام اصولوں کو اپنے سماج پر منطبق بھی کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 841687
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش