0
Monday 11 Jul 2011 12:22

شمسی ائیربیس خالی کرنے کے مطالبے، ٹرینرز نکالنے پر ناراضگی..امریکہ نے پاکستان کی 80 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک لی، کوئی فرق نہیں پڑیگا، ذرائع

شمسی ائیربیس خالی کرنے کے مطالبے، ٹرینرز نکالنے پر ناراضگی..امریکہ نے پاکستان کی 80 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک لی، کوئی فرق نہیں پڑیگا، ذرائع
 واشنگٹن:اسلام ٹائمز۔ پاکستان کی جانب سے شمسی ائیر بیس سے سی آئی اے کے ڈرون آپریشنز بند کرنے کے مطالبے، امریکی فوجی ٹرینرز نکالنے اور ڈومور کے مطالبات مسترد کرنے پر امریکہ ناراض ہو گیا ہے اور اس نے پاکستان کی 80 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک لی ہے۔ وائٹ ہاﺅس کے چیف آف سٹاف ولیم ڈیلے نے اے بی سی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے امریکی امداد روکنے کے بارے میں نیویارک ٹائمز کی خبر کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کچھ ایسے اقدام کئے ہیں جو پاکستان کی فوجی امداد روکنے کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ امریکہ نے پاکستان کی قریباً 80 کروڑ ڈالر کی امداد روک لی۔ ولیم ڈیلے نے کہا کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات مشکلات کا شکار ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم مشکل صورتحال سے نہیں نکلتے اپنے اتحادی ملک کے لئے کچھ رقم روکے رکھیں گے، جس کا امریکہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک ان معاملات پر کام کر رہے ہیں جن کے باعث تعلقات تعطل کا شکار ہوئے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے جب تک تعلقات بہتر نہیں ہوتے پاکستان کی فوجی امداد کی روکی جانے والی کچھ رقم بحال نہیں ہو گی۔ 
اس سے قبل ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کیس اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکی ملٹری ٹرینرز کو نکال دیا گیا تھا اور پاکستان شمسی ائر بیس سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا جس پر امریکہ ناراض ہوا اور امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ رقم پاکستان کیلئے دو ارب ڈالر کی امریکی امداد کا حصہ ہے، جس میں سے قریباً تین سو ملین ڈالرز پاکستان کی جانب سے پاکستان افغان بارڈر پر ایک لاکھ سے زائد فوجی دستے تعینات کرنے کی مد میں ادا کئے جانے تھے۔ باقی رقم ملٹری ٹریننگ اور دیگر فوجی سازوسامان کیلئے دی جانی تھی۔ اخبار نے امریکی سینئر حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کو سکیورٹی کی مد میں دو بلین ڈالر کی امداد میں سے ایک تہائی سے زائد 80کروڑ ڈالر کی فوجی امداد اور آلات کی فراہمی منسوخ یا ملتوی کی گئی ہے۔
 واضح رہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کر کے یہ امداد روک رہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق امریکہ نے یہ اقدام پاکستانی فوج کو دباﺅ میں لانے کے لئے کیا ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے گزشتہ ماہ سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کو بتایا کہ امریکہ پرانی رفتار سے امداد کی فراہمی پر اس وقت تک آمادہ نہیں ہوگا جب تک پاکستان بعض ضروری اقدامات نہ کرے۔ امداد میں کٹوتی کا واضح مقصد پاکستانی فوج کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اس کی کارروائیوں کے لیے مالی مدد فراہم کرنے والے ملک کا ساتھ دے گی یا پھر افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف سرگرم طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کی خفیہ معاونت جاری رکھے گی۔ 
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کےساتھ اپنے روئیے میں تبدیلی لا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق معطل اور منسوخ کی گئی امداد میں کچھ فوجی سامان ایسا بھی ہے جو امریکہ نے پاکستان کو دینا تھا لیکن اب پاکستانی فوج اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس فوجی سامان میں رائفلز، گولہ بارود اور دیگر فوجی سامان شامل ہے اس سے قبل اس ساز و سامان کو اس وقت روک لیا گیا تھا جب پاکستان نے ایک سو سے زیادہ امریکی خصوصی دستوں کے تربیت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا کہا تھا۔ پینٹاگون کے دو اعلیٰ اہلکاروں نے بتایا کہ کچھ فوجی سامان جس میں ریڈیو اور رات کو دیکھنے کے لیے دوربینیں اور ہیلی کاپٹر کا سامان ہے پاکستان کو نہیں دیا جا سکا کیونکہ پاکستان نے فوجی اہلکاروں کو ویزے جاری نہیں کئے۔ امریکی حکام نے کہا کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کیخلاف کارروائی میں سنجیدہ ہوا تو امداد اور فوجی ساز و سامان کی فراہمی بحال رکھی جائے گی اس سے قبل پچھلے ماہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے دفاعی اخراجات کے بل کی منظوری دی تھی جس کے تحت اس مد میں پاکستان کو دی جانے والی امداد پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اِس بل کے تحت پاکستان کےلئے منظور کی گئی ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی امداد کا 75 فیصد حصہ اس وقت تک جاری نہیں کیا جائے گا جب تک صدر اوباما کی انتظامیہ کمیٹی کو یہ رپورٹ نہیں دے گی کہ پاکستان کو دی گئی امداد کہاں خرچ ہو گی۔ واضح رہے کہ بی بی سی کے مطابق اوباما انتظامیہ پاکستانی فوج کو دباﺅ میں لانا چاہتی ہے تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر طور پر کردار ادا کر سکے۔
ادھر اسلام آباد میں عسکری ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے امریکی فوجی امداد بند ہونے سے پاک فوج کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عسکری ذرائع سے  جب استفسار کیا گیا کہ امریکہ سے پاکستان کی فوجی امداد بند ہو گئی ہے تو ان ذرائع نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدارت میں ہونے والے گذشتہ دنوں کور کمانڈروں کے اجلاس میں فوج نے یہ کہہ دیا ہے کہ امریکی فوجی امداد سول حکومت عوام کی فلاح کے لئے صرف کرے۔ ذرائع نے کہا کہ سوات اور دوسرے شورش زدہ علاقوں میں پاک فوج نے اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آپریشن کئے، پاک فوج انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن اپنے وسائل سے جاری رکھے گی۔ ذرائع سے پوچھا گیا کہ کیا فوج کو باقاعدہ طور پر امداد کی بندش سے آگاہ کر دیا گیا ہے تو ذرائع نے کہا کہ ابھی تک اس ضمن میں بیان ہی آیا ہے۔ باقاعدہ طور پر فوجی قیادت کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ 
اسلام آباد سے سٹاف رپورٹر کے مطابق عسکری ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد روکنے کے بارے میں تحریری طور پر ابھی کوئی اطلاع نہیں دی۔ امریکہ سے کوئی باضابطہ اور تحریری اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ پاکستان اپنی سلامتی کیلئے موجودہ کارروائیاں جاری رکھے گا۔ بی بی سی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی نے خود کہا تھا کہ فوجی امداد کو سویلین امداد کی جانب موڑ دیا جائے، ہم جو بھی کارروائیاں کر رہے ہیں چاہے وہ سوات میں ہوں یا جنوبی وزیرستان میں وہ امریکی امداد کے بغیر ہیں، اس میں کوئی غیرملکی امداد شامل نہیں، ہمارے پاس صلاحیت موجود ہے کہ کسی بیرونی امداد کے بغیر اس پر قابو پا سکتے ہیں۔ امریکہ نے باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا اس لئے اس پر مزید تبصرہ قبل از وقت ہو گا۔
 دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے باضابطہ طور پر فوجی امداد روکنے بارے آگاہ نہیں کیا گیا، واشنگٹن میں اپنے سفارتخانے سے اس معاملے پر رابطے میں ہیں۔ میڈیا رپورٹس اور وائٹ ہاﺅس کی تصدیق کئے جانے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ امریکہ نے اس سلسلے میں نہ تو سفارتی سطح نہ ہی فوجی سطح پر پاکستان کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا ہے۔ ادھر ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ قریبی اور موثر دفاعی تعلقات کے باعث امریکہ کی طرف سے فوجی امداد کی معطلی سے پیدا ہونے والا خلا پُر کر لے گا۔ ”سی بی ایس نیوز“ سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ دہائی کے دوران پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی اور موثر دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ساتھ طویل مدتی تعلقات کے باعث امریکہ کی طرف سے فوجی امداد میں مجوزہ کمی سے پیدا ہونے والا خلا پُر کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ کی جانب سے فوجی امداد سخت کئے جانے کی پہلے سے توقع تھی۔
خبر کا کوڈ : 84255
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش