0
Monday 17 Feb 2020 12:00

مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے باعث صحافی مزدوری پر مجبور

مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے باعث صحافی مزدوری پر مجبور
اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے باعث صحافی بے روزگار ہو گئے اور روزی روٹی کے حصول کے لئے مزدوری کرنے پر مجبور ہو گئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 29 سالہ صحافی منیب الاسلام 5 سال سے فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کی کھینچی گئی تصاویر نہ صرف بھارت کے اخبارات بلکہ غیر ملکی میڈیا کی بھی زینت بنتی رہیں۔ لیکن اگست 2019ء میں مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر لیا گیا اور احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لئے کرفیو سمیت سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں جن میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی بندش بھی شامل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں کے نتیجے میں منیب الاسلام اور ان جیسے دیگر کشمیری صحافیوں کے پاس رپورٹنگ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور وہ بے روزگار ہو گئے۔

بھارتی اقدامات کے باعث صرف صحافی ہی بے روزگار نہیں ہوئے بلکہ کشمیر میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو معاشی طور پر شدید نقصان پہنچا۔ منیب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے شعبہ صحافت اس لئے اختیار کیا کہ کیونکہ میں اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا، میں نے پوری لگن کے ساتھ کشمیر کے تنازع کی کوریج کی لیکن 5 اگست کے اقدام سے میرا یہ سفر رک گیا۔ منیب کی اہلیہ بیمار ہیں اور وہ خاندان کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے لئے 500 روپے دیہاڑی کے عوض زیر تعمیر عمارت پر اینٹیں ڈھونے کا کام کرتے ہیں۔ منیب کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ اور فون پر پابندی کے باعث ان کے پاس رپورٹنگ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ یہ صرف منیب الاسلام کی کہانی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ہر صحافی کی اس وقت کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ دیگر صحافیوں میں سے کوئی ڈیری فارم پر کام کر رہا ہے تو کوئی اسی طرح کے چھوٹے موٹ کام کرکے پیٹ کا ایندھن بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 845020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش