0
Monday 9 Mar 2020 00:33

خیبر پختونخوا میں 5 سال میں خواتین پر تشدد میں نمایاں اضافہ

خیبر پختونخوا میں 5 سال میں خواتین پر تشدد میں نمایاں اضافہ
اسلام ٹائمز۔ دنیا خواتین کی معاشرتی، اقتصادی، ثقافتی اورسیاسی کارناموں کا دن منا رہی ہے لیکن خیبر پختونخوامیں ان کے خلاف پر تشدد مظالم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2015 سے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جس سے صوبے میں صنفی کرائم بڑھ گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی طویل فہرست میں عصمت دری سرفہرست جرم ہے۔ پولیس سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق 2015 سے 2019 کے دوران جنسی زیادتی کے900 واقعات ہوئے۔ دستاویزکے مطابق صوبے میں گذشتہ 5 سال کے دوران عصمت دری کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہوا۔ لیکن کمزور ثبوت اور DNA پرکھنے کی سہولت کے فقدان کی بنا پر سزا کی شرح کم رہی۔ ایٖڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن فیروز شاہ کے مطابق کچھ کیسز کمزور تفتیش کے باعث بند کردیئے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں DNA کی سہولت نہ ہونے پرہم کیسزکی تفتیش نہیں کر سکتے۔

فیروز شاہ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن شبینہ ڈیاز نے کہا کہ بریت کی بنیادی وجہ DNA کی سہولت کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیمپل پنجاب بھیجنا پڑتے ہیں اور رزلٹ ملنے تک کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران خواتین کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ آئی جی خیبر پختونخوا کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق صوبائی پولیس اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2015 سے پانچ سال میں عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ 5 سال قبل ریپ کے 135 کیس ریکارڈ کئے گئے۔ اگلے سال بڑھ کر 2016 میں 163 ہو گئے۔ 2017 میں کچھ کمی دیکھی گئی۔ لیکن 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر 216 ہوگئی جبکہ 2019 میں عصمت دری کے 216 کیس رپورٹ ہوئے۔ ایڈیشنل آئی جی نے بتایاکہ خیبرپی کے میں خواتین کو ٹارگٹ کرنا، قتل کرنا جیسے جرائم شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں 1,100 خواتین قتل کی گئیں۔ 250 کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ 344 گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ دیہاتوں میں معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے زیادہ تر کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
خبر کا کوڈ : 849221
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش