0
Friday 15 Jul 2011 15:11

ملک اسحاق لال مسجد اور جی ایچ کیو ریسکیو آپریشن مذاکرات میں شامل رہا

ملک اسحاق لال مسجد اور جی ایچ کیو ریسکیو آپریشن مذاکرات میں شامل رہا
لاہور:اسلام ٹائمز۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے بانی ارکان میں سے ایک ملک محمد اسحق جنہیں 14سال کی قید کے بعد جمعرات کو رہا کیا گیا ہے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں لاہور کی ایک جیل سے رہائی کے بعد فوجی حکام نے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے راولپنڈی پہنچایا تھا تاکہ تحریک طالبان کے ان فدائین سے مذاکرات کریں جنہوں نے 10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔ ملک اسحق نے خود تسلیم کیا تھا کہ وہ لشکر جھنگوی کے عسکری کارروائیوں کے ونگ میں شامل رہا ہے، انہوں نے ایک روزنامہ کی خبر کے مطابق یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ اکتوبر1997ء میں 102 افراد کی ہلاکت کے واقعہ میں ملوث رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے فدائین کی طرف سے 42افراد جن میں کئی سکیورٹی فورس کے اہلکار شامل تھے اغواء کر لیا گیا تھا اور فوجی حکام نے ملک اسحق کو ان کیساتھ مذاکرات میں شامل کیا تھا۔ وقت حاصل کرنے کے حربے کے طور پر مذاکرات کاروں نے جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کے بعض اہم رہنماؤں کو بھی مذاکرات میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں خصوصی طیارے لاہور، بہاولپور اور رحیم یار خان بھیجے گئے جہاں سے لشکر جھنگوی کے اہم رہنماء ملک اسحق، سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی، حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانا مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی مفتی عبدالرؤف جو جیش محمد کے قائم مقام امیر بھی ہیں کو راولپنڈی لایا گیا۔
فوجی حکام نے ان تمام رہنماؤں سے درخواست کی کہ وہ ان 42 افراد کے اغواء کاروں سے مذاکرات کریں ان چار جہادی رہنماؤں کو فوجی حکام نے فرقہ پرست تنظیموں سے روابط رکھنے کی وجہ سے فدائیاں سے مذاکرات میں شامل کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چاروں جہادی رہنما جنہیں جی ایچ کیو میں فوجی حکام نے یرغمال بنانے والوں کیساتھ مذاکرات کیلئے شامل کیا تھا انہیں اس سے قبل2007ء میں مشرف کے دور حکومت میں لال مسجد آپریشن کے دوران علماء کے ساتھ مذاکرات میں بھی شریک کیا گیا تھا۔ ملک اسحق کو سپریم کورٹ نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے الزام کے کیس میں ثبوتوں کی کمی اور کیس کی کمزور پیروی کی بدولت ضمانت پر رہا کردیا ہے اور اب وہ ایک آزاد شخص ہوچکا ہے تمام چالان میں صرف دو گواہان پیدا کئے جاسکے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنیوالے کچھ لوگوں کے مابین ہونے والی گفتگو سنی تھی۔
ملک اسحق کو جسٹس شاہد صدیقی اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے ملزم کے خلاف پراسکیوشن کی طرف سے تسلی بخش کیس پیش نہ کرنے کی بناء پر ضمانت پر رہا کردیا۔ ملک اسحق کو فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں ملوث ہونے کی بناء پر 1997ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کیخلاف 44 مقدمات میں 70 لوگوں کو قتل کرنے کا الزام تھا لیکن ثبوتوں کی عدم فراہمی کی بناء پر تمام مقدمات میں وہ رہا کر دیا گیا۔ 1996ء میں قائم ہونیوالی لشکر جھنگوی اس وقت القاعدہ اور طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہوچکے ہیں اور پاکستان میں خودکش حملہ آوروں کے سکواڈ کے ساتھ پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں مصروف سب سے پرتشدد گروپ کہا جاتا ہے۔ ملک اسحاق میں ایران کے قونصلیٹ کو جلانے اور عملے کے قتل میں بھی ملوث رہے۔ یوں ملک اسحاق تین ممالک کے شہریوں کے قتل میں ملوث تھا۔
یہاں امر قابل زکر ہے کہ مسلم لیگ ن کی ملی بھگت سے ملک اسحاق کی رہائی عمل میں آئی ہے، گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے اپنے بیان میں واضح کہا کہ جب پولیس حکومت پنجاب کے دیئے گئے اصولوں پر چلے گی تو کیس کے شواہد خود بخود ختم ہوجائیں گے، کچھ عرصہ قبل کالعدم تنظیم کے سربراہ مولانا احمد لودھیانوی نے جھنگ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک اسحاق جلد رہا ہوکر آجائیں گے، یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب پنجاب حکومت کے وزیر قانون نے جھنگ میں ووٹوں کی خاطر کالعدم کے جلسے میں شرکت کی اور ووٹ مانگے، مبصرین کا کہنا ہے کہ سپاہ صحابہ کے سربراہ نے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ تعاون کو ملک اسحقاق کی رہائی سے مشروط کیا تھا جسے مسلم لیگ ن نے تسلیم کرلیا تھا، یہ رہائی اس معاہدہ کے تحت عمل میں آئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 85178
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش