0
Monday 6 Apr 2020 23:38

غیر انسانی سلوک بھلا نہیں سکتا، کورونا کے مشتبہ مریض کی آب بیتی

غیر انسانی سلوک بھلا نہیں سکتا، کورونا کے مشتبہ مریض کی آب بیتی
اسلام ٹائمز۔ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے چارسدہ کے ایک نوجوان محمد سلمان نے دوران علاج اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا ہے کہ جیل کی قید تنہائی سے اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں کیا جانے والا سلوک زیادہ برا تھا۔ 30 سالہ نوجوان نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتا تھا، فروری میں اسے  سینے اور پیٹ میں درد ہوا تو چیک کرانے پر ڈاکٹروں نے اپینڈکس آپریشن تجویز کیا، میں نے وہاں آپریشن کرانے کے بجائے پاکستان آکر علاج کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں چیک کرایا تو ڈاکٹر نے بتایا پھیپھڑوں میں سوجن ہے، دوائی دینے سے کافی حد تک ٹھیک ہو گیا۔ اسی دوران مارچ میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی باتیں ہونے لگیں، اچانک محکمہ صحت کی طرف سے فون آیا کہ اس کا چیک اپ کرنا ہے، 13 مارچ کو اسپتال بلا کر ایک کمرے میں بند کر کے باہر دو گارڈ کھڑے کر دیئے گئے۔

میری رپورٹ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجی گئی جس میں کورونا پازیٹو آیا، اس کے بعد میری اصل آزمائش شروع ہو گئی، میری تصویر ٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے لگی، سوشل میڈیا پر نئی نئی کہانیاں گھڑی جانے لگیں۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے نے میرا چیک اپ بند کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس حفاظتی سامان نہیں، باقی دنیا سے میرا رابطہ صرف موبائل پر تھا، ہسپتال میں افواہیں تھیں کہ اگر میں مرگیا تو میری میت گھر والوں کو بھی نہیں دی جائیگی، کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیا جاؤنگا۔ گاؤں میں میرا گھر قرنطینہ قرار دیدیا گیا، میرے خاندان کا حقہ پانی بند ہو گیا۔

میرے بھائی اور بیوی کے ٹیسٹ بھی لیے گئے لیکن خوش قسمتی سے وہ نیگیٹو آگئے۔ میں اسپتال میں پڑا ہروقت اپنے اور گھروالوں کے ساتھ ہونیوالے سلوک کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ ایسا وقت بھی آیا کہ ہسپتال میں مجھے کھانا دینا بھی بند کر دیا گیا۔ میں نے ایک چینل کو فون کیا تو طبی عملہ کو ہوش آیا، پھر کھانا تو ملنے لگا لیکن دوائی پھر بھی نہ دی گئی۔ مجھے کھانسی تھی نہ سینے میں  درد، نہ ہی بخار لیکن  میری ذہنی حالت خراب ہو چکی تھی۔ میڈیکل اسٹاف صرف فون پر میری حالت کے بارے میں پوچھتا تھا، مجھے تسلی دی جاتی تھی کہ میرا مدافعتی نظام بڑا مضبوط ہے لہذا میں بیماری کو شکست دے سکتا ہوں۔

17 دنوں بعد میری رپورٹ نیگیٹو آئی تو میری جان چھوٹی۔ ڈاکٹر نے جب رازداری میں مجھے یہ خبر سنائی تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں ساری رات سو نہ سکا، اگلے دن مجھے گاڑی میں بٹھا کرگھر چھوڑ دیا گیا۔ اب میں کورونا وائرس کو تو بھول چکا ہوں لیکن قید تنہائی اور اس دوران اڑائی جانے والی افواہیں اور غیر انسانی سلوک مجھے نہیں بھولا۔
خبر کا کوڈ : 855073
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش