0
Monday 27 Apr 2020 12:44

25 اپریل تک انکوائری کمیشن کے لیے چینی اور آٹے کی تمام ملز کا فرانزک ناممکن تھا، ذرائع

25 اپریل تک انکوائری کمیشن کے لیے چینی اور آٹے کی تمام ملز کا فرانزک ناممکن تھا، ذرائع
اسلام ٹائمز۔ چینی اور آٹے کے بحران کی فرانزک تحقیقات سے آگاہ سینئر حکومتی عہدیدار نے کہا ہے کہ مطلوبہ فرانزک ماہرین کی تلاش اور ملز کی بندش جیسی رکاوٹیں جامع آڈٹ کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنیں۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ابتدائی رپورٹ جاری کرنے کے بعد کمیشن کو 25 اپریل تک فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں خوراک کے بحران میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور وزیر خوراک خسرو بختیار، پی ٹی آئی کے اتحادی رہنما مونس الہی، ان کے قریبی رشتہ داروں کی مبینہ مداخلت سامنے آئی تھی۔ مقامی اخبار کے مطابق حکومتی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ انکوائری کمیشن کے لیے چینی اور آٹے کی تمام ملز کا فرانزک 3 ہفتوں میں کرنا ناممکن تھا اسی لیے کمیشن نے رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت مانگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر چینی کے کچھ تاجروں کی بدعملیاں میڈیا کی جانب سے بے نقاب نہیں کی جاتیں تو اس رمضان میں ایک کلو چینی کی قیمت 110 سے 120 روپے فی کلو تک بڑھنے کا امکان تھا۔ عہدیدار نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی حالیہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں چینی کی کھپت میں تیزی سے کمی بھی آئی ہے ورنہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی۔ عہدیدار نے کہا کہ رپورٹس کی تکمیل میں تاخیر کے لیے حکومت اور کسی ادارے پر تنقید کرنے سے قبل یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فرانزک آڈٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہہ صنعتوں کے فرانزک آڈٹ کا تجربہ ملک میں نیا ہے جس کے نتیجے میں انکوائری کمیشن کو چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات میں مشکلات کا سامنا بھی تھا۔ حکومتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم نے فرانزک تحقیقات کا فیصلہ کیا تو ابتدائی طور پر ہم مطلوبہ فرانزک ماہرین نہیں ڈھونڈ سکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملز کی بندش ایک اور مسئلہ تھا کیونکہ مالکان اپنی ملز کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے جب تک کمیشن کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں ملز خود کھولنے کی دھمکی نہ دی گئی۔

اس وارننگ پر ملز مالکان نے فرانزک آڈٹ کے لیے فیکٹریاں کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ عہدیدار نے کہا کہ ملک میں شوگر انڈسٹری میں قیمتوں میں اضافے کا غیر رسمی اور خفیہ نظام موجود تھا جو سٹہ کہلاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس رپورٹس ہیں کہ اس رمضان میں سٹے کے ذریعے چینی کی قیمت فی کلو 110 سے 120 روپے تک بڑھائی جاسکتی تھی لیکن جب انکوائری رپورٹس میڈیا میں شائع ہوئیں تو غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد نے چینی کی قیمتوں میں اضافہ روک دیا۔ حکومتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ شوگر انڈسٹری میں سٹہ کیسے کھیلا جاتا ہے فرانزک رپورٹ اس کی تفصیل بیان کرے گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ کمیشن نے رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت مانگی ہے اور وفاقی کابینہ 28 تاریخ کو درخواست سے متعلق فیصلہ کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 859249
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش