0
Monday 27 Apr 2020 21:48

چترال میں مزید 4 افراد کا ٹیسٹ پازیٹیو، کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 16 ہوگئی

چترال میں مزید 4 افراد کا ٹیسٹ پازیٹیو، کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 16 ہوگئی
اسلام ٹائمز۔ چترال میں مزید چار مشکوک مریضوں کا ٹیسٹ مثبت آگیا، جس سے کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد سولہ ہوگئی۔ چترال میں آئے روز کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ سے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ محکمہ صحت کے پبلک ہیلتھ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر نثار اللہ کے مطابق ضلع اپر چترال سے تعلق رکھنے والا ثناء اللہ ولد صادق اللہ عمر 22 سال جو بونی کے قریب مشہور قصبے چرون کا باشندہ ہے، وہ 20 اپریل کو پشاور سے آیا تھا، اسے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین بونی کے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا تھا، کل اس کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا اور اسے آئیسولیشن وارڈ شفٹ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق  زیریں چترال سے تعلق رکھنے والی ہجرت بیگم زوجہ معین اللہ عمر 38 سال جو پاک افغان سرحدی علاقے دومیل کی رہائشی ہے، وہ بھی پشاور سے آئی تھی، اسے دروش کے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا تھا، کل اس کا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آنے کے بعد اسے ہسپتال کے آئیسولیشن وارڈ میں شفٹ کیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق مسلم شاہ ولد عجائب شاہ سکنہ گہتک دنین عمر 64 سال جو پنجاب کے ضلعی خوشاب سے آیا ہوا تھا، اسے بھی چترال ڈگری کالج کے قرنطینہ میں رکھا گیا تھا، عبدالفیاض ولد عبد اللہ خان سکنہ دنین عمر 28 سال یہ بھی پنجاب کے ضلع خوشاب سے چترال آیا ہوا تھا اور اسے بھی گورنمنٹ کامرس کالج کے ہاسٹل میں مقیم قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا تھا۔ ان کا بھی ٹیسٹ پازیٹیو آگیا، جس سے چترال میں کرونا وائریس کی مریضوں کی تعداد 16 ہوگئی۔ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں، جبکہ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں صرف تین وینٹی لیٹرز ہیں اور ان کے چلانے کیلئے بھی تربیت یافتہ عملہ نہیں ہے۔ چترال کے لوگ صوبائی اور وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ چترال کے ہسپتالوں میں کرونا وائرس کی روک تھام اور علاج معالجے کیلئے عملہ کے ساتھ ساتھ ضروری سامان اور مشینری بھی ہنگامی بنیادوں پر بھجوائی جائے۔

دریں اثناء عوامی حلقوں میں اس بات پر نہایت تشویش پائی جاتی ہے کہ کامرس کالج کا قرنطینہ مرکز کرونا وائرس کی پیداوار کا ایک مرکز بن چکا ہے، جہاں سے کئی کیس مثبت آچکے ہیں اور وہاں قرنطینہ میں رہنے والے ایک مریض نے نام نہ بتانے کی شرط پر ہمارے نمائندے کو ٹیلی فون پر بتایا کہ کامرس کالج کے ہاسٹل میں 43 سے 53 مریض رکھے جاتے ہیں، جہاں صرف چار واش روم ہیں اور سب لوگ انہی واش رومز اور لوٹوں کو بار بار استعمال کرتے ہیں، جس سے یہ وباء ایک دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس بابت تحقیقات کرانے کی اپیل بھی کی ہے۔ چترال کے قرنطینہ مرکز سے کرونا وائرس کے مریضوں کے بھاگ جانے سے بھی لوگوں میں حوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حیات الرحمان ولد  سعید اللہ خان سکنہ کاری چترال، جو 8 اپریل کو پشاور سے آیا تھا اور کامرس کالج کے ہاسٹل نمبر 2 پہلی منزل کے قرنطینہ مرکز میں اسے رکھا گیا تھا، وہ اتوار کے روز  شام آٹھ بجے اپنے کمرے سے بھاگ گیا، جبکہ پولیس اس کو تلاش کر رہی ہے۔

اسی طرح چترال ٹو ڈے کے مطابق حرمت شاہ ولد خان گل سکنہ علی آباد وادی آرکاری جو راولپنڈی سے دو دن پہلے آیا تھا، چترال پہنچنے پر اسے کامرس کالج کے قرنطینہ مرکز میں رکھا گیا، مگر چند لمحوں بعد ایک سرکاری گاڑی وہاں پہنچ گئی اور اسے وہاں سے نکال کر اس کے گھر پہنچایا گیا، جس سے علاقے کے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ چترال ٹو ڈے کے مطابق حرمت راولپنڈی میں ایک سرکاری افسر کے گھر میں کام کرتا ہے۔ علاقے کے لوگوں نے اس بات پر نہایت غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بعض لوگوں کو تو پولیس گھروں سے نکال کر قرنطینہ مرکز میں ڈالتی ہیں، مگر بعض با اثر لوگوں کو سرکاری گاڑی میں قرنطینہ مرکز سے نکال کر غیر قانونی طور پر ان کے گھر پہنچا دیا جاتا ہے، جس سے کرونا وائرس پھیلنے کا حدشہ ہے اور لگتا یہ ہے کہ بعض ادارے جان بوجھ کر اسے پھلانا چاہتے ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے اس بابت بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 859413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش