0
Saturday 13 Jun 2020 17:11

امریکی خاتون صحافی اہم شخصیات تک کیسے پہنچی، تحقیقات کی جائیں، منیر گیلانی

امریکی خاتون صحافی اہم شخصیات تک کیسے پہنچی، تحقیقات کی جائیں، منیر گیلانی
اسلام ٹائمز۔ اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین، اے آر ڈی کے رہنما سابق وفاقی وزیر تعلیم سید منیر حسین گیلانی نے امریکی خاتون صحافی سنتھیا رچی کے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید سمیت متعدد سیاستدانوں کے بارے میں بیہودہ الزامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی ایجنسیوں کے کردار اور حکمرانوں کی جاسوسی بارے تحقیقات منظر عام پر لائی جائیں کہ غیر ملکی خاتون نے این جی او کی آڑ میں پاکستان میں آ کر ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم تک رسائی کیسے حاصل کی؟ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزراء تک اس کی رسائی کیسے ممکن ہوئی اور اب تک وہ یہاں کس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں؟ پاکستانی ایجنسیاں خاموش کیوں رہیں؟ کیا وہ اس کھیل کا خود حصہ تھیں یا سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہیں کہ ضرورت پڑنے پر پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

لاہور میں ملاقات کرنیوالے وفد سے گفتگو میں سید منیر گیلانی نے کہا کہ بینظیر بھٹو شہید کی سیاست کو انہوں نے قریب سے دیکھا ہے اور ان کے ذاتی علم میں ہے کہ متعدد بار ان کے ذاتی معاملات پر سابق وزیر اعظم کے شوہر کے کردار بارے آصف علی زرداری کے ذاتی سٹاف سے معلومات لی جاتی رہیں اور ان پر من پسند معلومات حاصل کرنے کیلئے دباو ڈالا جاتا رہا تاکہ ایسی باتیں نکلوائیں یا ان کے منہ سے کہلوائیں جو دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کیلئے استعمال کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کی کردار کشی ان کے جمہوری عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے کی گئی جدوجہد کے باعث مارشل لا کے دور میں اور اس کے بعد بھی جنرل ضیا الحق کی باقیات ایک منظم سازش کے تحت کرتی رہیں جبکہ آصف علی زرداری کو جیل کاٹنا پڑی تشدد برداشت کیا، میڈیا میں ان کی کردار کشی کی گئی، ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے لیکن یہ جرات اور حیرت کی بات ہے کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ریاستی تشدد برداشت کرنے اور زبان کٹوانے کے باوجود ثابت قدم رہے اور بینظیر بھٹو کی شہادت تک دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکی خاتون کا پس منظر اور امریکی معاشرے کی روایات پر نظر دوڑائی جائے تو سنتھیارچی کی سرگرمیوں کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ جنسی تعلقات قائم کر کے سیاستدانوں سے معلومات حاصل کرنا کوئی عیب سمجھا ہی نہیں جاتا اور یہ کام بڑی مہارت سے کیے جاتے ہیں جبکہ اس تلخ حقیقت سے واقفان حال آگاہ ہیں کہ کم و بیش تمام سفارتخانوں میں ہر طرح کی ایجنسیوں کے لوگ ہوتے ہیں اور لگتا ہے کہ اسی طرح کا تعلق اس خاتون کا بھی ہے لیکن یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران بھی کردار کے غازی تو ہوتے نہیں اور رنگینیوں میں بہت جلد پھسل جاتے ہیں۔ آئی ڈی ایف کے چیئرمین نے مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات کی جائیں کہ امریکی خاتون وزیراعظم اور وفاقی وزراء تک پیپلز پارٹی کے دور میں اور بعد میں کیسے پہنچیں۔ ان کی سرگرمیاں کیا تھیں؟ کیا ایجنسیوں کو معلوم نہیں تھا کہ سنتھیارچی کس کیلئے کام کر رہی ہیں؟ کیونکہ پاکستان کی سیاست کو بدنام کرنے کیلئے ایسے بدنام زمانہ کردار ماضی میں بھی پیدا کیے جاتے رہے ہیں، جو سیاستدانوں پر بے ہودہ قسم کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 868372
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش