0
Thursday 2 Jul 2020 16:53

توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس کیس، آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد

توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس کیس، آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس کیس میں مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے توہین آمیز ویڈیو از خود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ فائل ہوچکی ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ آغا افتخار الدین مرزا کی طرف سے کون پیش ہو رہا ہے، جس پر ان کی وکیل سرکار عباس نے جواب دیا کہ افتخار الدین مرزا نے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرا دیا ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معافی نامہ ہمارے سامنے نہیں ہے، جو الفاظ استعمال کیے گئے، کیا ایسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے تھے، ایسے مقدمے میں معافی کیسے دیں۔
 
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آغا افتخار الدین مرزا کو 6 ماہ کے لیے جیل بھیج دیتے ہیں، آپ کو اس کیس کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہے، آپ اس کیس کو بہت ہلکا لے رہی ہیں، جس پر ان کی وکیل نے کہا کہ افتخار الدین مرزا دل کے مریض ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیا کریں، ان کو اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیئے تھا۔ سماعت کے دوران ہی جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق یہ تو فوجداری اور دہشت گردی کا جرم بھی بنتا ہے، معافی دینے کا فائدہ نہیں ہوگا، فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمے میں معافی نہیں ہوتی جبکہ منبر پر بیٹھ کر گفتگو، نجی گفتگو کیا ہوئی۔؟ اس پر وکیل آغا افتخار الدین بولیں کہ اب ہم معافی مانگ رہے ہیں، عدالت معاف کر دے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت ساری چیزیں معاف نہیں ہوتیں۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل آغا افتخار نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگا دی ہیں، اسی دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ان کی معافی کی بات پر مزید کہا کہ آپ کی معافی ہم قبول نہیں کر رہے، معافی نامے سمیت دلائل میں تین مختلف مؤقف دیئے گئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ منصوبے کے ساتھ ویڈیو بنائی گئی اور اس میں تصویریں بھی شامل کی گئی، جس پر آغا افتخار الدین کی وکیل نے کہا کہ میں دوبارہ درخواست کرتی ہوں کہ معاف کر دیں، انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ادارے ہیں، جن کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایسے الفاظ استعمال کرکے معافی مانگ لی جائے، اس پر پھر وکیل نے کہا کہ آغا افتخار غریب بندے ہیں، انہیں معاف کر دیں۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ایسے جرم پر فوری سزا نہیں ہوسکتی، اس پر انہیں اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت چاہے تو جرم قبول کرنے پر آج بھی سزا سنا سکتی ہے، ساتھ ہی وہ بولے کہ آغا افتخار نے عدلیہ اور ججز کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے، ان کے بیان نے عدلیہ کی ساکھ کو خراب کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آغا افتخار نے دل میں درد کی شکایت کی تو ان کو اسپتال منتقل کیا گیا، ان کو چکر آرہے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت کا نوٹس ہوگا تو چکر تو آئیں گے۔ ساتھ ہی ان کی وکیل نے کہا کہ افتخار الدین مرزا کو ہسپتال لے کر گئے ہیں، وہ مر جائیں گے، گذشتہ سماعت پر وہ عدالت عظمیٰ آئے تھے، لیکن پولیس نے انہیں عدالت میں پیش ہونے نہیں دیا۔ دوران سماعت عدالت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے لکھا ہوا خط پیش کرنے کی کوشش کی گئی، جس پر عدالت نے اہلیہ جسٹس عیسیٰ کا لکھا ہوا خط لینے سے انکار کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کچھ جمع کرانا ہے تو عدالتی طریقہ کار کے مطابق جمع کرائیں، ساتھ ہی عدالت نے صحافی حامد میر اور محمد مالک کے وکیل کو بھی سننے سے انکار کر دیا۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ افتحار الدین مرزا کی ویڈیو کسی بچے کی بنی ہوئی نہیں، ان کا اپنا ویڈیو چینل ہے، اس سے افتخار الدین مرزا پیسے کماتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ ایسی زبان تو گلیوں میں بھی استعمال نہیں ہوتی، اسلامی اسکالر نے ایسی ویڈیو بنا کر دنیا کے لیے پبلک کر دی، ایف آئی اے کے سامنے ملزم نے تسلیم کیا کہ 7 نمازیوں کے سامنے ویڈیو ریکارڈ ہوئی، ملزم نے معافی مانگ کر اپنا جرم تسلیم کر لیا ہے جبکہ آغا افتخار الدین مرزا کہہ رہے ہیں کہ میں نے جرم نہیں کیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معافی نامے کا بیان حلفی بھی قانونی طریقہ کار کے مطابق نہیں، سادہ کاغذ پر معافی نامہ لکھ کر دیا گیا ہے، معافی نامہ پڑھیں، لکھا کیا ہے، اس مقدمے کو عام مقدمے کی طرح نہ لیں، افتخار الدین مرزا کو ابھی سزا سنا دیں گے، انہیں کئی ماہ جیل میں رہنا پڑے گا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس افتخار الدین مرزا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، اس مقدمے میں کوئی رحم کی بات نہیں۔ بعد ازاں عدالت نے افتخار الدین مرزا کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے انہیں 7 روز میں جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر آغا افتخار الدین کو پیش کریں۔ جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کو 15 جولائی تک ملتوی کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 872117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش