0
Friday 3 Jul 2020 22:20

 الیکشن بھی ڈھونگ تھے، حکومت بھی ڈھونگ ہے اور اسمبلیاں بھی جعلی ہیں، مولانا فضل الرحمان 

 الیکشن بھی ڈھونگ تھے، حکومت بھی ڈھونگ ہے اور اسمبلیاں بھی جعلی ہیں، مولانا فضل الرحمان 
اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں وہ کردار ادا نہیں کرسکیں، جو حکومت کو گرانے کے لئے کافی ہو، ملک کو نااہلوں کے حوالے کردیا گیا جس کی وجہ سے معیشت ڈوب گئی اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بجٹ زیرو سے بھی نیچے چلا گیا، ملکی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا، 2018ء کے الیکشن ہی ڈھونگ نہیں تھے بلکہ حکومت اور بجٹ بھی ڈھونگ ہے، احتساب اعتماد کھو چکا ہے، کرونا پر پوری قوم نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا، لیکن موجودہ حکومت ایسے حالات میں غیرمتنازعہ ایشو کو دوبارہ متنازعہ بنانے کے لئے لگ گئی ہے، جس کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلدیاتی الیکشن نہیں جنرل الیکشن کرائے جائیں، حکومت کہتی ہے کہ چوروں کی تلاش میں ہیں انہیں پکڑیں گے، کابینہ میں بیٹھے چوروں کو کیوں نہیں پکڑ رہے حکمرانوں کا یہ کہنا کہ ان کے پاس پانچ سے چھ مہینے ہیں، شکست خوردگی کی علامت ہے مدارس میں کسی صورت مداخلت برداشت نہیں کریں گے، کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کی مذمت کرتے ہیں، مظلوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، سب سول سیکریٹریٹ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مترادف ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم گلگشت میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا، اس موقع پر ضلعی امیر مولانا محمد ایاز الحق قاسمی، جنرل سیکرٹری قاری محمد یسین، سٹی امیر مولانا حبیب الرحمن اکبر، سٹی جنرل سیکرٹری حاجی زاہد مقصود احمد قریشی، ضلعی امیر مولانا عبد الرحمن قاسمی، میاں جمشید اجمل، مولانا یوسف مدنی، قاری عبد اللہ عابد بھی موجود تھے۔

مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پوری قوم آج ہمارے موقف کی تائید کر رہی ہے، جو ہم نے شروع دن سے اپنایا تھا اور جنہوں نے حکمرانوں کی پروجیکشن کے لئے کئی سال لگائے، حمایت کی وہ بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے غلط کیا اور یہی حالت دانشوروں کی ہے، کے پی کے میں حکومت نے خود احتساب کمشن بنایا لیکن جب خود ان کے اپنے ہی وزراء شکنجے میں آنے لگے تو کمیشن کو ختم کردیا، فارن فنڈنگ کا کیس ہو یا کوئی اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے حکومت عدالتوں سے سٹے ہی لے رہی ہے، یہ احتساب اعتماد کھو چکا ہے۔ حکومت نے کہا کہ کرونا پر قومی یکجہتی کی ضرورت ہے جس پر پوری قوم نے فراخدلی سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور تعاون کا تمام جماعتوں نے ہاتھ بڑھایا، مگر موجودہ حالات کے اندر حکومت غیرمتنازعہ ایشو لے کر کھڑی ہو گئی، 18ویں ترمیم ہو یا این ایف سی ایوارڈ آج ان کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے صوبوں سے محرومی کی آواز اُٹھے گی، جن پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ صوبوں کا حصہ کم ہونا چاہیئے، فاٹا کے عوام کو دربدر کردیا گیا جہاں پر کوئی پٹواری تک نہیں، فاٹا میں لینڈ ریفارم ہے، کے پی کے میں ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگ آگئے، آج مملکت کی بقاء کا سوال پیدا ہوتا ہے، جن اداروں کی ذمہ داری اسٹیٹ کا تحفظ ہے، دفاعی قوت سے اسٹیٹ کو تحفظ دیا جاتا ہے آج معیشت کی تباہی ریاست کے لئے خطرہ بن گئی ہے، اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج بلدیاتی الیکشن نہیں جنرل الیکشن کرائے جائیں، کیونکہ الیکشن بھی ڈھونگ تھے، حکومت بھی ڈھونگ ہے اور اسمبلیاں بھی جعلی ہیں، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سول سیکریٹریٹ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مترادف ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کو سپورٹ کرنے والے بھی ڈانواں ڈول ہیں، جبکہ اپوز کرنے والے بھی لیکن آج یہ دیکھنا ہوگا کہ حکمرانوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ مینگل نے حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا وہ اپنے موقف پر مضبوط ہیں لیکن مسئلہ دوسری جماعتوں (ق) لیگ، ایم کیو ایم ودیگر کا ہے، جو آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ورنہ جس طرح آزادی مارچ کو عوام دیکھ رہی تھی تبدیلی ضرور آجاتی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مدارس رجسٹرڈ نظام تعلیم ہے اور اس کے حکومت کے ساتھ معاہدات ہیں، اگر مدارس میں مداخلت ہوئی تو برداشت نہیں کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 872318
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش